کالم

آئی ایم ایف سے1.1 ارب ڈالر موصول، حکومت کی وہی پرانی باتیں، پہلے جیسا رونا دھونا، کیاعوام کو ریلیف ملے گا؟

لاہور 94 نیوز (طارق محمود جہانگیری کامریڈ) یہ بات اب کسی ذی شعور پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں رھی ھے کہ ھماری حکمران سیاسی جماعتیں آئی ایم ایف کے مالیاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اقتدار میں آتی ہیں ۔ یا پھر انہیں اس ایجنڈے کی تکمیل کے اقتدار میں لایا جاتا ھے ۔ جس طرح ملاں کی دوڑ مسجد تک ھوتی ھے بالکل اسی محاورہ کی طرح ھمارے حکمران طبقہ کا اولین مقصد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ھیڈ آفس تک رسائی حاصل کرنا ھوتا ھے۔ اسی لیے تو برسرِ اقتدار جماعت آئی ایم ایف سے مذاکرات طے کرنے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔ اور قرضہ کی مئظوری پر خوشی کے شادیا نے بجائے جاتے ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں جشن کا سماں ھوتا ھے ۔ جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنی نظر اندازی ، اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے برسرِ اقتدار حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا خوب نشانہ بناتی ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی رقوم کا عوام الناس کے محنت کش محروم طبقات کو کیا کوئی فائدہ حاصل ھوتا ھے ۔ اس کا مختصر سا سیدھا سادہ جواب ھے بالکل نہیں پہنچتا ھے ۔ بلکہ عوام الناس کو ان قرضہ جات رقوم کی ادائیگیاں سود کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ھیں ۔ بھاری ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ حکمران طبقہ اشرافیہ اور امراء ٹولہ قرضہ جات سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے ۔ گزشتہ منگل کی ایک مصدقہ خبر کے مطابق پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول ہوگئے ہیں ۔آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 29 اپریل 2024 کو ہونے والے اجلاس میں اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر کی منظوری دی تھی۔ آئی ایم ایف کی نئی قسط ملنے سے کیا عام آدمی کو ریلیف مل سکے گا؟ بالکل نہیں کیونکہ اس سے پہلے کبھی ریلیف ملا ھے نہ اب مل سکے گا ۔ یہ سب جھوٹی تسلیاں اور دل بہلانے کے سب بہانے ھیں وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ جون یا جولائی کے شروع میں آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ طے ھو جائے گا ۔ واضح رہے کہ 3 مئی 2024 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں آئی ایم ایف کی جانب دی جانے والی رقوم ظاہر کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس پاکستان نے آئی ایم ایف کی جانب سے یہ تیسری اور آخری قسط ہے۔ اس سے قبل پاکستان 1.9 ارب ڈالر وصول کرچکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات و تفصیلات کے مطابق پیر 6 مئی 2024 کے روز وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور قرض پروگرام لینے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود آئندہ ماہ مالی سال کے وفاقی بجٹ برائے 2024- 2025 کی تیاری کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جاسکی ھے ۔ یہ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام سے منسلک ہونے کی وجہ سے حکومت کو آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ خبریں بھی آرھی ھیں کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں ن لیگ کی اتحادی حکومت نے 600 ارب روپے کےاضافی ٹیکس لگانے کی تیاری بھی مکمل کر لی ھے۔ حکومت پہلے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ٹیکس محصولات اور بجٹ خسارہ طے کرے گی۔ اس کے بعد وفاقی وزارتوں کے لیے ترقیاتی بجٹ کی حد طے کی جائے گی ۔ رواں مالی سال کا بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔ 2 مئی کو وقاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹیکس چوری روکیں، غیر ضروری اخراجات کو ختم کریں، ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں اور ٹیکس سرکل کو بڑھائیں۔ آئی ایم ایف ہمیں بجلی چوری روکنے اورمحکموں کی گورننس ٹھیک کرنے کا بھی کہہ رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور مالیاتی معاہدات کرنے والی حکومتوں اور حکمران سیاسی رانماوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام اور ان کی شرائط عوام کے لیے معاشی مسائل اور معاشی عزاب کا سبب بنتی ھیں۔ ھماری حکمران سیاسی جماعتیں ، ھمارے سیاسی راہنما عوام دوستی ، عوام الناس کی خیر خواہی کے دعوے کیوں کرتے ہیں ۔ ھماری عوام ان کے خوش کن وعدوں پر اندھا اعتماد و یقیں کیوں کرلتیی ھے ۔ ھماری عوام کو اپنے رانماوں ، مسیحاؤں اور اپنے نجات ھندوں یہ سوال کم از کم ایک مرتبہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ گزشتہ 24 سالوں کے دوران بنگلہ دیش ، افغانستان ، سری لنکا ، بھارت کتنی بار آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ھے ۔ 1991 کے بعد ھمارا پڑوسی ملک نے آئی ایم ایف سے کتنے مزاکرات اور معاہدات طے کئے ہیں ۔ 20 سالوں میں پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومت نے کتنی بار آئی ایم ایف سے مذاکرات، معاہدات طے کئے ہیں ۔ دلچسپ خبر یہ ہے کہ حال ہی میں عدالت سے سود کے خاتمے کا فیصلہ آچکا جس پر عملدرآمد جاری ہے۔ لاھور کے حلقہ این اے کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سب سے زیادہ ایف بی آر کی بریفنگ لی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے ایف بی آر میں اصلاحات کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ ایف بی آر اصلاحات کا ایجنڈا وزیراعظم کی اوّلین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ پارلیمنٹ ٹیکس اصلاحات سے متعلق پہلا قانون بھی پاس کر چکی ہے۔ وزیر قانون کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت معاشی بحران سے گزررہا ہے، باتیں کرنے یا پالیسیاں بنانے سے مالی مسائل حل نہیں ھوتے ھیں۔ ہمیں انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی، بجلی کی چوری اور دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ 2ہزار 700 ارب روپے سے زائد ٹیکس کیسز عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔ لٹکے ہوئے ھیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر کے ریفارمز کا ایجنڈا وزیراعظم کی ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ وزیر اعظم کا عزم ہے کہ معاشی بحالی میں ایف بی آر کا بہت عمل دخل ہے اور اگر ٹیکس نیٹ بڑھے گا تو لوگوں کا بوجھ کم ہوگا۔ وزیر قانون اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے جو باتیں کی ہیں یہ نئی یا انوکھی باتیں نہیں ھیں ۔ اس قسم کی باتیں مسلم لیگ ن کی حکومت کے مختلف ادوار کے دوران کئی مرتبہ سننے کو ملی ہیں ۔ اپنے 16 ماہ کے اقتدار کے دوران بھی مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کا یہی رونا دھونا تھا ۔ اس قسم کی باتیں کی جاتی رھیں ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button