Column

Diving in the land of peace, do not use religion for personal gain

عبادت گاہوں میں لوگ آکر سکون اور اطمینان محسوس کرتے ہیں،قبضہ والی زمین پر عبادت گاہ جائزنہیں

Diving in the land of peace, do not use religion for personal gain

کہا جاتا ہے کہ عبادت گاہیں ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی اور معتبر ہوتی ہیں، عبادت گاہیں امن کا گہوارہ ہوا کرتی ہیں، عبادت گاہوں میں لوگ آکر سکون اور اطمینان محسوس کرتے ہیں، اور اپنے گناہوں کی معافی اپنے اپنے رب سےطلب کرتے ہیں، وہ چاہے مساجد ہوں، گرجا گھر ہوں، مندر ہوں یا گوردوارہ، ہر مذہب کے لوگ اپنی عبادت گاہ کو معتبر سمجھتے ہیں، اور ہونا بھی چاہئے، عبادت گاہوں کے بارے یہ بھی ہے کہ اسکی زمین کی قیمت ادا کی گئی ہو، قبضہ کرکے یا کسی ناجائز طریقہ سے حاصل کی گئی زمین پر عبادت گاہ نہیں بنانی چاہئے، بلکہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں یتیم بچوں کی زمین خرید کر وہاں مسجد تعمیر کی گئی، اور یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر ایسا کیا گیا، آج کل کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات اور کاروبار کو عروج دینے کے لئے عبادت گاہوں کو شیلٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، مذاہب کے نام پر نفرتیں پھیلاتے نظر آتے ہیں، اور معصوم بچوں کے ذریعے بلیک میل کرتے بھی دکھائی دیتے ییں،نہ صرف بچوں بلکہ بڑے لوگوں کو بھی استعمال کر جاتے ہیں اسکے لئے انہیں جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرگزرتے ہیں، اسی طرح کا ایک واقع داؤد نگر میں دیکھنے کو آیا، مدینہ ٹاؤن خیابان کالونی،رضا گارڈن،عبداللہ گارڈن،چک نمبر204 رب اور ملحقہ علاقوں کی 3لاکھ پر مشتمل آبادیوں کو سیوریج کے مسائل سے نکالنے اور مستقل بنیادوں پر حل کے لئے داؤد نگر ڈسپوزل اسٹیشن کے لیئے جگہ کا انتخاب فیصل آباد ماسٹر پلان کے مطابق انجنئیرز کی طرف سے تیار کردہ فیزیبلیٹی سٹڈی اور فیلڈ سروے کے بعد چار سال قبل کیا گیا تھا اور علاقہ میں دستیا ب موزوں زمین کا انتخاب کر کے خریدی گئی تھی، اس ڈسپوزل اسٹیشن کو مطلوبہ علاقوں کو سروس دینے کے لئے مین سیور لائینیں پہلے ہی بچھائی جا چکی تھیں اب تک اس پراجیکٹ پر واسانے عوام کا 30کروڑ روپے خرچ کیا اس اثناء میں علاقہ میں واقع ایک اسکول کے مالک نے صرف اپنے ذاتی مفاد میں اس منصوبہ کو رکوانے کے لئے ہر طرح کے حربے آزمانا شروع کئے جن میں سابقہ حکومت کے منتخب ممبران اسمبلی شیخ اعجاز ،طاہر خلیل سندھو وغیرہ کو بھی اپنی حمائیت پر آمادہ کر کے پراجیکٹ کو تاخیر کا شکار کیا حتٰی کہ واسا انتظامیہ کی طرف سے انہیں ہر طرح کے اعتماد میں لینے کی بارہا انتہائی کوششیں کی گئیں اور انہیں بتایا گیا کہ شہر بھر میں40کے قریب ڈسپوزل اسٹیشن قائم ہیں جن میں سے 30ڈسپوزل اسٹیشن شہر کے انتہائی گنجان آباد رہائشی و کاروباری علاقوں میں واقع ہیں اور وہاں شور شرابے اور بدبو کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا تھا لیکن بد قسمتی سے تمام معاملے کو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کا رنگ دیتے ہوئے مذہبی منافرت بھی پھیلانے کی کوشش کی گئی اور اسکول کے معصوم بچوں کو ڈھال بناتے ہوئے واسا کے خلاف مظاہرے بھی کئے گئے اور وارث پورہ و دیگر علاقہ کے مسیحی برادری کے لوگوں کو یہ کہہ کر بلایا گیا کہ آپکے مقدس نشان صلیب کی بے حرمتی کی گئی ہے اسکو توڑا گیا ہے اسلئے آپ اپنے گھروں سے نکلیں اور احتجاج کریں، لیکن اس وقت کچھ سمجھ دار مسیحی رہنماؤں نے جب حقیقت دیکھی تو انہوں نے اس علاقہ کے بلدیاتی رہنما اور اس یونین کونسل کے چئیرمین حق نواز غفاری سے رابطہ کیا اور انکو کہا کہ بشپ افتخار شہر کا امن تباہ کرنے کی کوشش کررہا ہے ہم حقیقت کو جان چکے ہیں ہم اس معاملہ میں اسکا ساتھ نہیں دیں گے ان مسیحی رہنماؤں جن میں پادری ارشاد پرکاش اور داؤد نگر کے دیگر مسیحی رہنماؤں نے شہر کو بد امنی سے بچا لیا اور اپنی برادری کے لوگوں کو بتایا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس سے ہمارے مذہب کی ےا صلیب کی توہین کی گئی ہو یہ صرف بشپ افتخار اپنے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر ہمیں اس کی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو شہر میں ریلوے روڈ پر قائم مسیحیوں کے سب سے بڑے کیتھولک چرچ کے مین داخلی دروازے پر کئی دہائیوں سے قائم ڈسپوزل اسٹیشن اپنا کام کر رہا ہے اس کے علاوہ گلشن کالونی ، میٹروپول، اکبر آباد،اقبال سٹیڈیم ،گلستان کالونی،شاداب کالونی،ڈی ٹائپ کالونی،عبداللہ پور،منصور آباد ڈسپوزل اسٹیشنز شہر کے انتہائی گنجان آباد علاقوں میں عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں ،گلشن کالونی سے ملحقہ سرکاری اسکول کی کھڑکیاں ڈسپوزل اسٹیشن کے احاطہ میں کھلتی ہیں،میٹروپول ڈسپوزل اسٹیشن گلبرگ کے علاقہ میں مسجد کے ساتھ واقع شاداب کالونی ڈسپوزل قبرستان اور جنازگاہ کے ساتھ ہے،الہی آباد ڈسپوزل ایک بڑے سرکاری ھسپتال اور لڑکیوں کے سرکاری کالج کے ساتھ قائم ہے،جبکہ نور پور ڈسپوزل اسٹیشن سرکاری گرلز اسکول اور مسجد کے ساتھ واقع ہے،واسا انتظامیہ نے بشپ افتخار اور ان کے ساتھیوں کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ اس ڈسپوزل اسٹیشن کی تعمیر جدیدڈیذائن کے مطابق کی جائے گی جس سے ان کے ہر طرح خدشات بالکل ختم ہو جائیں گے لیکن یہ نہائیت ہی افسوسناک امر ہے کہ ذاتی سوچ اور مفاد کو ترجیح دی گئی ،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈسپوزل اسٹیشن کا پراجیکٹ قبضہ مافیا کی کوششوں کی وجہ سے پہلے ہی 4سال کی تاخیر کا شکا ر ہو چکا تھا اور واسا حکام نے ماضی میں سرکاری کام میں رکاوٹیں ڈالنے پر سول عدالت میں استغاثہ بھی دائر کر رکھا ہے جس میں بشپ افتخار قانون کو مطلوب ہے اور اس کے چند ساتھیوں نے ضمانت کروا رکھی ہے ،کمشنر اور ڈپٹی کمشنرفیصل آباد اور پولیس حکام نے واسا حکام کی درخواست پرعوامی مفاد کے اہم منصوبہ کو مزید تاخیر کا شکار ہونے سے بچاتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے واسا کو مطلوبہ قابل قدرسپورٹ فراہم کی اور سالوں سے تاخیر کا شکار منصوبے پر تیزی سے تعمیراتی کام کا آغاز کیا جا چکا ہے فیصل آباد کے شہری فیصل آباد کی موجودہ سیاسی قیادت، انتظامیہ،پولیس اور موجودہ واسا انتظامیہ کے مشکور ہیں کہ واسا زمین کا قبضہ واگزار کروا کر شہری مفاد کے منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز کیا، اگر واسا نے جلد یہ پراجیکٹ جلد مکمل نہ کیا تو کینال کے ایسٹرن سائیڈ کی 3لاکھ کے قریب تمام آبادیاں جو کہ سیوریج کی سروسز کے حوالے سے پہلے ہی انتہائی پیچیدگی کا شکار ہیں ان کی تکالیف میں خدانخواستہ اور بھی یقینی اضافہ ہو جانے کا احتمال تھا۔

Show More

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button