قومی

شوگر مافیا کیلئے پنجاب حکومت سے 3 ارب روپے کی سبسڈی کیسے منظور کروائی گئی ؟

لاہور (94 نیوز) شوگر اور آٹا سکینڈل کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اہم عہدوں پر کچھ تبدیلیاں کیں جبکہ کچھ ممکنہ ذمہ دار از خود بھی الگ ہوگئے ، اب اس کی حتمی رپورٹ 25 اپریل کو متوقع ہے جس کے بعد مزید اقدامات کی امید کی جا رہی ہے، لیکن پنجاب حکومت سے سبسڈی کس طرح منظور کروائی گئی تھی ،

روزنامہ جنگ میں سینئر صحافی انصار عباسی نے لکھا ہے کہ ’’ ملک کی طاقتور شوگر انڈسٹری کو تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کا معاملہ پہلے ہی طے تھا اور پنجاب حکومت نے بس اس کی منظوری دینے کے معاملے میں ربڑ اسٹمپ کا کام کیا۔ دستاویزی شواہد اور پس منظر کے روابط سے کچھ سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور عثمان بزدار کی حکومت کی جانب سے دی گئی تین ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری میں کچھ ناقابل یقین حقائق بھی سامنے آتے ہیں۔ اُس وقت کے سیکریٹری پنجاب محکمہ خزانہ نے تین سمریوں میں سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی اور یہ سمریاں چیف سیکریٹری آفس میں زیر غور تھیں، اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 29؍ دسمبر 2018ء جو پہلی مرتبہ بہاولپور میں صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ کابینہ کے اجلاس کا ایجنڈا بھاری تھا لیکن اس میں چینی کی سبسڈی کا معاملہ شامل نہیں تھا۔

اجلاس کے دوران، وزیر خوراک نے حیران کن انداز سے ایجنڈا میں شوگر مل مالکان کیلئے تین ارب روپے کی سبسڈی کا معاملہ پیش کر دیا۔ کابینہ ارکان میں اجلاس سے قبل کوئی سمری تقسیم کی گئی اور نہ ہی اجلاس میں یہ سمری پیش کی گئی۔ سیکریٹری خزانہ پنجاب کیلئے یہ بات بھی انتہائی حیران کن تھی، وہ خود بھی اجلاس میں موجود تھے۔ سیکریٹری خزانہ نے تین سمریاں پیش کی تھیں جن میں سبسڈی کی مخالفت کی گئی تھی لیکن جس وقت یہ تینوں سمریاں حیران کن انداز سے چیف سیکریٹری کے دفتر میں زیر التوا تھیں اس وقت سیکریٹری خوراک نے سب باتوں کو نظرانداز کرکے ایجنڈا سے ہٹ کر یہ معاملہ صوبائی کابینہ کے روبرو پیش کر دیا۔ عموماً ایسی تمام سمریاں وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد ہی کابینہ میں پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں یہ فنانس ڈپارٹمنٹ کی یہ تینوں سمریاں وزیراعلیٰ کی میز تک نہ پہنچیں، چیف سیکریٹری کے دفتر میں زیر التواء رہیں، اور اسی دوران فوڈ ڈپارٹمنٹ نے براہِ راست کابینہ سے رابطہ کرکے چینی کی سبسڈی منظور کرائی۔

ایسا کرکے اس نے یہ بات یقینی بنائی کہ معاملہ کابینہ کے وزیروں کیلئے بھی حیران کن ہونا چاہئے۔ تاہم، کابینہ کے اجلاس کے اہم نکات (منٹس) سے معلوم ہوتا ہے کہ فوڈ ڈپارٹمنٹ اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی رائے یکساں تھی اور انہوں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ سبسڈی دی جائے گی۔ جس وقت سیکریٹری خزانہ کی تین سمریاں چیف سیکریٹری آفس میں زیر غور تھیں، اس وقت عثمان بزدار نے 6؍ دسمبر 2018ء کو اجلاس بلایا اور تین ار ب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ کابینہ کا اجلاس صرف پہلے سے کیے جا چکے فیصلے پر مہر لگانے کی ایک رسم تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 29؍ دسمبر 2018ء کو ہونے والے اجلاس کے اہم نکات بھی اس مبینہ اسکیم کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اہم نکات کے مطابق، سیکریٹری خوراک نے کابینہ کو چینی کی برآمد پر سبسڈی کے حوالے سے کابینہ کو بریفنگ دی۔

اجلاس وزیراعلیٰ کی زیر صدارت ہوا جس میں 4؍ دسمبر 2018ء کو ای سی سی کی جانب سے کیے گئے فیصلے کے حوالے سے زبانی بریفنگ دی گئی۔ یہ طے کیا گیا کہ فریٹ سپورٹ /ایکسپورٹ کا ریٹ سبسڈی کے شیئر کے حساب (5.35؍ روپے فی کلوگرام) سے برقرار رکھی جائے گی جو 2017-18ء کے دوران پنجاب حکومت دے گی۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ ایکسپورٹ فریٹ /سبسڈی کا مجموعی حجم تین ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔ میٹنگ منٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکریٹری فوڈ نے کابینہ کمیٹی برائے چینی کے اجلاس (جس کی صدارت بھی بزدار نے کی تھی) کا حوالہ دیا، یہ اجلاس 17؍ دسمبر کو ہوا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی نے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کے مشورے پر غور کیا اور طے کیا کہ پنجاب صوبے سے برآمد کی حد 0.572؍ ملین میٹرک ٹن (تین ارب روپے) تک محدود رکھی جائے۔

جب وزیر خوراک اور سیکریٹری خوراک کابینہ کو یہ بریفنگ دے رہے تھے تاکہ پہلے سے ہی سبسڈی دینے کیلئے کیا جانے والا فیصلہ پرسکون انداز سے آگے بڑھے، حیران و پریشان سیکریٹری خزانہ پنجاب نے خاموشی سے چیف سیکریٹری (جو وہاں اجلاس میں موجود تھے) سے رابطہ کیا اور اصرار کیا کہ جو رائے انہوں نے اپنی تین سمریوں میں پیش کی ہے وہی رائے انہیں یہاں اجلاس میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ چیف سیکریٹری نے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنی رائے پیش کریں۔ سیکریٹری خزانہ نے صوبائی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ چینی کی اضافی پیداوار کا معاملہ قومی نوعیت کا ہے اور وفاقی حکومت سبسڈی میں اپنا حصہ صوبوں کے ساتھ مل کر 50-50 کی بنیاد پر طے کرتا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے تازہ ترین اجلاس کا پنجاب کے مالیات پر منفی اثرات مرتب کرے گا کیونکہ وفاق کی طرف سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اس کے بعد یہ ہمیشہ کیلئے ایک مثال بن جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سبسڈی معاشی خرابی سمجھی جاتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کم از کم ایک ایسے موقع پر نہیں کرنا چاہئے جب حتمی طور پر مستفید ہونے والوں یعنی کسانوں پر پڑنے والے اثرات واضح نہ ہوں۔

انہوں نے صوبائی کابینہ کو مشورہ دیا کہ پالیسی کی تیاری کا حکم دیا جائے تاکہ سبسڈی کو بتدریج ختم کیا جا سکے کیونکہ یہ گندم کی طرح زیادہ استعمال جیسی چیز نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ نے سیکریٹری خزانہ کی رائے نظرانداز کر دی اور فوڈ ڈپارٹمنٹ کی تجویز منظور کرنے کا فیصلہ کیا جس کی وہ کابینہ کے اجلاس میں پہلے ہی دو مرتبہ توثیق کر چکے تھے۔ کابینہ کے دیگر ارکان کو موقع ہی نہ ملا کہ وہ اجلاس کے دوران تجاویز پڑھ سکیں۔ کابینہ ارکان تک فنانس ڈپارٹمنٹ کی تین سمریاں بھی نہیں پہنچنے دی گئیں۔ نتیجتاً، کابینہ نے صرف مہر کا کام کیا اور وہی فیصلہ کیا جو پہلے ہی کیا جا چکا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے چینی کی سبسڈی کے حوالے سے ای سی سی کے فیصلے کے اہم نکات کا انتظار کیے بغیر ہی زبانی معلومات پر انحصار کیا اور چینی کے ایشو پر ای سی سی کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دو دن بعد ہی اپنا اجلاس طلب کر لیا۔ اگرچہ چینی کی سبسڈی کے معاملے پر سرکاری فائلوں میں عجیب اور باعث تشویش ہیرا پھیریوں کا اندازہ ہوتا ہے لیکن پنجاب کی بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر بیٹھے لوگ پہلے ہی جانتے تھے کہ عثمان بزدار کو یہ فیصلہ کرنے پر کون مجبور کر رہا ہے۔

گزشتہ منگل کو  ایف آئی اے کی شوگر سکینڈل کیس میں انکوائری کے حوالے سے ایک مجرمانہ حرکت نظرانداز کیے جانے کی بات کا ذکر کیا گیا تھا، خبر شائع ہوئی تھی کہ اس وقت کے وفاقی سیکریٹری تجارت یونس ڈھاگا نے حساب کی بنیاد پر تجویز دی تھی کہ چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی سمری کی بنیاد پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور ساتھ ہی وفاقی کابینہ نے سیکریٹری تجارت کی سفارش منظور کی لیکن پنجاب حکومت نے آنکھیں بند کرکے تین ارب روپے کی سبسڈی دیدی۔ سیکریٹری تجارت کی تجویز کی روشنی میں پنجاب حکومت کی جانب سے شوگر مل مالکان کو سبسڈی دینا سنگین غفلت ہے۔ پنجاب حکومت نے 5؍ روپے 35؍ پیسے فی کلوگرام کے نرخ پر تین ارب روپے کی سبسڈی دی تاکہ چینی برآمد کی جا سکے۔ پنجاب حکومت ایک ایسے موقع پر چینی کی برآمد پر سبسڈی دے رہی تھی جب ملک کی مقامی منڈیوں میں اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا‘‘۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button