کالم

کیا جڑانوالہ جیسے واقعات ہوتے رہیں گے؟

مورخہ 16 اگست 2023 کو فیصل آبد کی تحسیل جڑانوالہ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جہاں ایک شخص سلیم مسیح نے مبینہ طور پر قرآن مجید کی بے حرمتی کی، ںبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، اور پھر کیا ہوا؟ مسجد میں اعلان ہوتا ہے اور لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جاتا اور آناََ فاناََ لوگ جلوس کی شکل میں گرجا گھر پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، آگ بھی لگا دیتے بستی بھی جلا دیتے، جڑانوالہ کے اے سی جو کہ مسیح ہیں وہ پہلے ہی لوگوں کو وہاں سے نکل جانے کا مشورہ دے دیتے تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو اور لوگ بستی خالی کرجاتے۔ اے سی کو معطل کردیا جاتا، پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی بہت کچھ ہو چکا تھا۔ پھر پولیس بھی پہنچ گئی اور اعلیٰ افسران خود موقع پر پہنچے اور علماء کی ساتھ لوگوں کو یقین دلایا کہ ملزم کیخلاف بھرپور کارروائی ہوگی۔۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی پہلا واقعہ ہے؟ کیا اسی طرح توہین مذہب ہوتی رہے گی جسکا دل کیا وہ قران مجید کی بے حرمتی کرے وہ حضور پاک ﷺ کی توہین کرے اور پھر وی آئی پی بن کر ملک سے باہر چلا جائے اور ڈالروں میں کھیلنے لگ جائے، کیا توہین مذہب کا قانون موجود نہیں؟ کتنے لوگوں کو سزا ہوئی؟ اگر سزا ہوئی ہوتی آج لوگ قانون کو ہاتھ میں نہ لیتے۔

کیا گرجا گھروں پر حملہ کرنا جائز ہے؟ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو جلانے کی اسلام اجازت دیتا ہے؟ کیا ان گرجا گھروں میں مقدس کتاب موجود نہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام موجود نہیں؟ کیا انکے نام کو آگ لگانا توہین مذہب نہیں؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔

اگر کسی کو قانون کے مطابق توہین مذہب کی سزا دی جاتی آج کسی کی جراءت نہ ہوتی وہ جتھوں کی شکل میں گرجا گھروں پر حملہ آور ہوتے۔ وہ بستی کو آگ لگاتے، وہ قرآن مجید کی بے حرمتی کرتے، وہ حضور پاک ﷺ کی توہین کرتے۔ انہیں پتہ ہوتا کہ قانون اگر موجود ہے تو اس پر عمل بھی ہوگا۔ مگر قانون تو موجود ہے اس پر عملدرآمد کیوں نہیں؟

پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی بھی ہوئی، پاکستان کا امیج پوری دنیا میں کیا گیا؟ کہ ہم اقلیتوں کے حقوق سلب کرتے، ہم جذباتی قوم ہیں، کیا ہم قوم ہیں بھی کہ نہیں؟ قومیں بننے میں ایک وقت لگتا، لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا، لوگوں کو قبول کرنا پڑتا، ہر کسی پر غداری کا دھبہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہر کوئی غدار نہیں ہوتا۔ ہر کوئی ملک دشمن نہیں ہوتا۔ لیکن ملک دشمنوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے،

اب اصل مدعا سے بات کو ہٹا کر جس نے توہین کی وہ سرخرو ہو رہا اور اس طرف بات چل نکلی کی جلوس والے کیوں ایسا کررہے؟ کیا یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش نہیں؟ کیا سارا یورپ اب نہیں بولا پڑا؟ کشمیر میں کب سے اقلیتوں کے حقوق سلب ہورہے وہاں کیا کچھ نہیں ہورہا؟ وہاں یورپ کیوں خاموش ہے؟ یورپی یونین؟

پاکستانیوں سمجھنے کی باتیں ہیں، شرپسندوں کے آلہ کار نہ بنیں، شرپسند تو چاہتے ہیں کہ ملک میں انتشار برپا ہو، اب اسی واقعے کے بعد کچھ نام نہاد تنظیمیں اقلیتوں کے حقوق کے لئے کروڑوں ڈالر امداد لیں گی، اور متاثرین کو کچھ بھی حاصل نہیں ہونا تنظیمیں اور مضبوط ہونگی، نئی گاڑیاں ملیں گی، اور اگلے سانحے کا انتظار کریں گی۔

ہمیں اپنی آںکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ ملک کے امن کو تباہ نہ ہونے دیں، ایسے موقعوں پر آپ دیکھ لیں سوشل میڈیا پر کیسی کیسی پوسٹس شئیر کی جارہیں، جان بوجھ کر آگ والی ویڈیو شئیر کی جارہی تاکہ مزید آگ بھڑکے، اور وہ اپنی سیاست خوب چمکائیں،

تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے، پولیس کی اس معاملے میں ہم سب کو مدد کرنی چاہئیے جو انکو ثبوت چاہئیں ہمیں وہ فراہم کرنے چاہئیں اگر کسی کے پاس بھی موجود ہیں، تاکہ بات اسؒ حقائق سے ہٹ نہ جائے۔ اور تفتیش مکمل ہونے تک کسی بھی طرح کے کمنٹس کرنا اور اپنی پسند کے بیانات دینا جس سے انتشار کا خطرہ ہو، اور انتشار پیدا کرنے والی پوسٹس شئیر کرنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ کئی بار لوگ اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر بھی ایسے خود ساختہ واقعات بنا ڈالتے۔ اور کچھ ایسے واقعات کرکے یورپ بھی چلے جاتے۔

اب سلیم مسیح کے خلاف کوئی نہیں بول رہا کہ اس نے یہ کیوں کیا؟ یہ کہے جا رہے جتھے نے یہ کیوں کیا؟ ہم سب مانتے کہ جتھے نے غلط کام کیا مگر اسکا آغاز کس نے کیا؟ کیا وہ ملزم ذمہ دار نہیں؟ جس کی وجہ سے اتنے لوگ متاثر ہوئے پورا پاکستان متاثر ہوا، مسلمان بھی پریشان اور نہ صرف مسیحی بلکہ ہندو، سکھ پارسی و دیگر اقلیتیں بھی پریشان۔ پمیں اسکو سزا دلوانی چاہئیے جس کی وجہ سے یہ سارا کام ہوا پھر امن بھی ہو جائے گا اور سکون بھی ہو جائے گا۔

یہاں پر سول سوسائٹی، مذہبی قائدین، سیاسی رہنماؤں کا بہت بڑا رول ہے کہ وہ لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کریں، بات کو بڑھاوا دینے والی پوسٹس کو بالکل نہ لائک کرین نہ آگے شئیر کریں۔ جب ہم آگے شئیر کرتے تو بات بنتے بنتے مزید بگڑ جاتی ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button