قومی

سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد بلانے کی وجہ سامنے آگئی

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے اہل خانہ کو طلب کیا تھا: پولیس حکام

اسلام آباد (94نیوز)  سانحہ ساہیوال میں مقتول خلیل کے اہل خانہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کے لیے اسلام آبادپہنچے لیکن ان کی صدر مملکت سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ ترجمان ایوان صدر نے خلیل کے اہل خانہ کی صدر سے ملاقات طے ہونے پر وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے خاندان کی صدرسے ملاقات طے نہیں تھی ۔تاہم اب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس حکام کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ذیشان اور خلیل کے خاندان والوں کو طلب کیا تھا۔ ذیشان اور خلیل کے خاندان والوں کو پولیس لے کر اسلام آباد گئی تھی۔جب کہ دونوں خاندانوں کو بلائے جانے کے لیے قائمہ کمیٹی کا لیٹر بھی موجود ہے۔پولیس حکام کے مطابق سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے اہل خانہ سینیٹ کی بلڈنگ میں موجود رہے لیکن کمیٹی نے انہیں اندر نہیں بلایا۔

پولسی ذرائع کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے کسی کو بھی طلب کیا جائے تو پولیس ہی لے کر جاتی ہے جب کہ صدر مملکت اور چئیرمینسینیٹ کے بلانے پر کبھی پولیس کسی شخص کو لے کر نہیں گئی۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز لاہور میں اپنے وکیل شہباز بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے کہا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی اور چیئرمین سینٹ نے خصوصی ملاقات کے لیے ان کے خاندان کو اسلام آباد بلایا تھا۔لیکن وہاں پہنچ کر علم ہوا کہ صدر مملکت خود کراچی کے دورے پر ہیں۔ ہمارا خاندان اسلام آباد کی سڑکوں پر خوار ہوتا رہا ۔ حکومت واقعہ میں سنجیدگی دکھانے کے بجائے متاثرہ خاندان کا تماشا بنا رہی ہے ۔ قاتل اہلکاروں کو مکمل تحفظ دیا جا رہا ہے جبکہ مدعی متاثرہ خاندان سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہے ۔ جلیل کے وکیل شہباز بخاری نے کہا کہ اگر حکومت اور تحقیقاتی اداروں کی جانب سے دو روز میں اہم پیشرفت نہ کی گئی تو پیر کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔سانحہ ساہیوال میں متاثرہ خلیل کے خاندان نے تحقیقات میں پیش رفت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ 5 اہلکاروں کی گرفتاری کے حوالے سے بتایا گیا ، دیگر اہلکار گرفتار کیوں نہیں کئے گئے؟ مقتول خلیل کے بھائی نے مطالبہ کیا کہ واقعہ میں ملوث دیگر 11 اہلکاروں کو بھی فوری گرفتار کیا جائے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button