کالم

مسیحا۔۔۔۔۔۔ کیا تمام ڈاکٹرز؟

94 نیوز فیصل آباد (کشف رانا) آج کل ہم زندگی کے ہر شعبے میں بہت ترقی کرچکے ہیں۔ موجودہ دور انٹرنیٹ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور مانا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب طبیب یا حکیم بیماری کی تشخیص کے لئے نبض دیکھا کرتے تھے اور دیکھتے ہی بتا دیا کرتے تھے فلاں شخص کونسی بیماری میں مبتلا ہے مگر موجودہ دور میں نبض کی جگہ ٹیسٹوں نے لے لی ہے (جس پر مجھے ہر گز کوئی اعتراض نہیں) اعتراض محض اس چیز پر ہے کہ عصر حاضر کے ڈاکٹرز مریض کے لمبے چوڑے ٹیسٹ کرواتے ہیں اس بات سے بالکل بے نیاز ہوکر آیا اس غریب آدمی کے پاس اتنی موٹی رقم ٹیسٹوں کی مد میں موجود ہے بھی یا نہیں مگر ظلم تو یہ ہے کہ ٹیسٹ بھی اس کی من پسند لیبارٹری کے ہونے چاہئیں کیونکہ دیگر لیبارٹریز کے ٹیسٹ انکے لئے قابل قبول نہیں ہوتے۔ دوائی بھی من پسند میڈیکل سٹور سے۔ ڈاکٹرز کا شعبہ بہت مقدس اور پاکیزہ مانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسیحا بنایا ہے اللہ تعالیٰ یہ مقام و رتبہ ہر ایک کو نہیں دیتے مگر کیا تمام ڈاکٹرز واقعی مسیحا ہوتے ہیں؟

یوں تو فیصل آباد میں بہت سارے ہسپتال موجود ہیں جہاں غریبوں کا علاج ہوتا ہے مگر فیصل آباد کا ایک مشہور ہسپتال جسے سوشل سیکیورٹی ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ مزدوروں اور ملازم پیشہ افراد کیلئے بنایا گیا ہے۔ ان ملازمین کی تنخواہوں میں سے ہر ماہ کچھ رقم کا حصہ سوشل سیکیورٹی کی مد میں کاٹا جاتا ہے۔ جس سے ملازم پیشہ افراد کے بیوہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ نہایت ادب اور معذرت کیساتھ ہسپتال کے ڈاکٹرز کا رویہ مریضوں کیساتھ ہرگز بھی دوستانہ یا شفیقانہ نہیں بلکہ میں ذاتی طور پر جانتی ہوں کہ وہاں کی ڈاکٹرز نہایت بداخلاق، جھگڑالو، تکبرانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مریض کی آدھی بیماری تو ڈاکٹرز کے اچھے اخلاق اور میٹھی زبان سے ہی ٹھیک ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی مریض ہوتا ہے اسلئے اسے ہمدردی، پیار اور تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ادھر تو معاملہ بالکل ہی الٹ نظر آتا ہے۔ یہاں کی ڈاکٹرز کو یہی لگتا ہے کہ وہ دنیا کی واحد ڈاکٹرز ہیں جو کہ OPD میں بیٹھی ہیں اور انہیں ڈاکٹرز کی ڈگری کیساتھ ساتھ یہ لائسنس بھی مل گیا ہے کہ وہ جسے چاہیں بے عزت کردیں انہیں یہ اتھارٹی مل چکی ہے۔ ڈاکٹرز کی ٹریننگ میں ویسے تو انہیں یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ مریض سے اچھے روئیے سے پیش آنا ہے مگر مجھے لگتا ہے سوشل سیکیورٹی کے ڈاکٹرز یہ والی ٹریننگ لینا بھول گئے۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل سیکیورٹی ہسپتال کے ڈاکٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ جو ادویات مریضوں کو دی جاتی ہیں وہ بالکل فری یا زکوٰۃ فنڈ سے ہیں یا ڈاکٹرز انکی قیمت ادا کرکے مریضوں پر احسان کررہے ہیں۔ تو جناب والی۔۔۔۔۔ انہیں یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ وہ فری علاج نہیں کررہے بلکہ ہر ماہ باقاعدگی سے مزدوروں کی تنخواہ سے پیسے کٹ رہے ہیں چاہے وہ اس مہینے دوائی لیں یا نہ لیں ان کی تنخواہ سے ایک مقررہ رقم کی کٹوتہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کو یہ باور کروانے کی بھی ضرورت ہے کہ مریضوں کیساتھ جانوروں جیسا برتاؤ ہر گز مت کریں آپ کسی بھی منصب یا مقام پر فائز ہیں آپ کو ہرگز اس چیز کی اجازت نہیں کہ محض آپاس وجہ سے کسی کی عزت نفس کو مجروح کریں کہ آپ ڈاکٹر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہاؤس جاب کیساتھ ساتھ انہیں اخلاقی تربیت کی بھی بے حد ضرورت ہے کیونکہ جس معاشرے کا مسیحا ہی قاتل بن جائے پھر اس کا کائی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پھر چاہے یہ قتل کسی کی جان کا ہو یا کسی کی عزت نفس کا، بہرکیف قتل تو قتل ہی ہوتا ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button