کالم

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوسکیں گے؟ اختیارات کی منتقلی نچلی سطح پر ہو پائے گی؟

تجزیاتی رپورٹ ( 94 نیوز طارق محمود جہانگیری) مصدقہ اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنی کمر کس لینے کا ایک بار پھر فیصلہ کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق مراسلے بھی ارسال کر دیئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ مراسلے چیف سیکرٹری، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب کو بھجوائے ھیں۔ ان مراسلات میں حکومت پنجاب کو یہ ھدایات جاری کی گئی ہیں کہ صوبہ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق قانون سازی کا عمل جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات سے متعلق قانون سازی اور پنجاب لوکل ایکٹ بنایا جائے۔ کیونکہ بلدیاتی انتخابات کرانا آئینی تقاضوں کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے دفاع میں بڑا حیران کن اور مصخکہ خیز موقف اختیار کیا ہے کہ عام انتخابات کی وجہ سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کو موخر کر دیا گیا تھا۔ جبکہ پنجاب کے علاوہ تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔الیکشن کمیشن نے پنجاب کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق معاملات پر اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم اور آئی ووٹنگ سے متعلق پنجاب حکومت سے قانون سازی کا سٹیٹس بھی مانگ لیا ھے ۔ 27 اپریل کو الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر قانون سازی کے حوالے سے پیشرفت پر الیکشن کمیشن کو آگاہ کرے تاکہ صوبے میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جاسکے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو بھی ایک خط لکھا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے۔ الیکشن کمیشن پنجاب کے علاوہ دیگر تین صوبوں میں وہ اپنی یہ ذمہ داری پوری کر چکاہے ۔ واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے 2019 سے مقامی حکومت کے قوانین میں بار بار تبدیلیوں کی وجہ سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا ھے۔ جو کہ پاکستان کے دستور اور سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن نے یہ حکم دیا ہے کہ فی الفور قانون سازی کے حوالے سے الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ کو آگاہ کیا جائے تاکہ الیکشن کمیشن پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے مزید کارروائی کر سکے۔ ایک خبر کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 28 اپریل 2024 کو ہونے والے خیبرپختونخوا ضمنی بلدیاتی انتخابات برائے چیئرمین تحصیل کونسل میں عوام الناس کی سہولت کے لیے الیکشن مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سنٹر قائم کر دیا ھے ۔اب تک کی مصدقہ اطلاعات و تفصیلات کے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جلد جاری ہونے کا امکان پیدا ھوگیا ہے۔ اس امر کی تواقع کی جارہی ھے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا آغاز جون 2024 سے شروع ھو جائے ۔ بلدیاتی انتخابات پنجاب بھر کے تمام اضلاع میں مرحلہ وار ہونگے۔ 16جون کو ملتان ، لودھراں ، سرگودھا ، وہاڑی، بہاولنگر ، لیہ ، راجن پور پر مشتمل یونین کونسل میں ہونے کا امکان موجود ہے۔ ان بلدیاتی انتخابات میں عوام براہ راست چیئرمین یونین اور کونسلرز کا انتخاب کریں گے۔ یاد رہے کہ دوسال پہلے بھی اسی طرح سے بلدیاتی انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان 21 فروری کو کیا گیا تھا ۔ لیکن یہ مکمل طور پر ایک ڈراما اور مداری پن کا کھیل تماشا ثابت ہوا ۔ لاھور کے الیکشن کمیشن آفس کو تاریخ اور کاغزات نامزدگی کی تفصیلات کے بارے میں کسی قسم کی کوئی آگاھی حاصل تھی اور نہ ہی ٹاؤنز کورٹس میں بیٹھنے والے متعلقہ عملہ یا اسسٹنٹ کمشنر کو الیکشن کمیشن کے اوکانٹ نمبر یا کاغذات نامزدگی کے بارے میں علم اور جان کاری حاصل تھی ۔ الیکشن کمیشن اور حکومت پنجاب کی جانب سے یہ کھیل بلدیاتی امیدوارن کو دھوکہ میں رکھنے کے لئے یہ کھیلا گیا تھا یا پھر عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا ۔ اس راز سے اج تک پردہ نہیں اٹھ سکا ھے ۔ ھمارا حکمران طبقہ، ھماری حکمران سیاسی جماعتیں گزشتہ 76 سالوں کے دوران ابھی تک ایک مستحکم پائیدار بلدیاتی نظام رائج نہیں کرسکی ھیں ۔ جتنی مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات منعقد ھوئے ھیں مارشل لاء کے ادوار میں ھوئے ھیں ۔ سابق صدر جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی عزائم کے لیے بلدیاتی ادارے قائم کیے ۔ اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا ۔ بلدیاتی نظام کی ساخت و ترکیب ھر مرتبہ بدلتی رہی ۔ سیاسی صوبائی حکومتوں سے بلدیاتی نظام کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر لوکل ایکٹ کا مسودہ بھی تیار نہیں ھوسکا ۔ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا کے اضلاع میں عوامی مینڈیٹ بلدیاتی نظام کے نفاذ کی وجہ سے ملا تھا ۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے بلدیاتی اداروں اور بلدیاتی نظام کے بڑے بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے ۔ پنجاب میں اقتدارِ اعلیٰ سنبھالتے ھی تحریک انصاف نے اکتوبر 2018 کو پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو ملیا میٹ کردیا ۔ صوبہ پنجاب کے بلدیاتی نمائندوں کے آئینی و دستوری حقوق سلب کردئیے گئے ۔ تحریک انصاف کے دور میں چار سال تک صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات منعقد ھوسکے اور نہ ھی پی ٹی آئی کی پنجاب گورنمنٹ سے کسی قسم کا پنجاب لوکل ایکٹ تیار و مرتب ھوسکا ۔ عمران خان کی مقبولیت کسی عظیم کارنامہ ، کسی اعلیٰ منصوبہ یا حسن کارکردگی کا نتیجہ نہیں ھے بلکہ یہ بھرپور عوامی حمایت اندھی تقلید، شخصیت پرستی کے زمرے میں آتی ھے ۔ دیوتا کے پوجاری کارکنان کو تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی انتخابات کو مسلسل موخر کرنے کے بارے میں سوال ضرور کرنا چاہئے ۔ پی ڈی ایم کی تحریک میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوری عام انتخابات کا مطالبہ تو بدستور کیا جاتا رہا لیکن افسوس کہ مسلم لیگ ن کی قیادت شہباز شریف اور مریم نواز نے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو پھر سے بحال کرنے اور نئے بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کہیں پر بھی نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی اپنے منشور میں بلدیاتی نظام کا تزکرہ نہیں کیا ھے ۔ ووٹ کو عزت دو بیانیہ کا اصولی تقاضا تھا کہ پنجاب میں بروقت بلدیاتی انتخابات منعقد ھونے چاھئے تھے ۔ آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات 2005 کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں منعقد ھوئے تھے ۔ ن لیگ دعووں کے باوجود 2013 کو صوبہ پنجاب کے اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد نا کراسکی ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ جی کے حکم پر پنجاب بھر میں اکتوبر 2015 کو بلدیاتی انتخابات منعقد ھوئے۔ لیکن یہ بلدیاتی انتخابات برائے نام تھے ۔ مفلوج اپاھج بلدیاتی نظام کے انتخابات کا ڈھونگ بلدیاتی نمائندوں کو دھوکہ دینے کے رچایا گیا تھا۔ ن لیگ کی حکومت اور ارکان صوبائی اسمبلی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے میں سب سے بڑی روکاوٹ تھے ۔ صوبہ بھر کی کسی یونین کونسل میں ایک بھی اجلاس منعقد نہ ھوسکا ۔ رجسٹرڈ کاروائی اجلاس روداد سے خالی رھا ۔ تھوڑے بہت اختیارات یونین چیرمین کے پاس تھے ۔ لاھور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے لارڈ مئیر نے شاہ پرستی کے کارن عہدے کے خوب مزے لوٹے ۔ بلدیاتی ادارے ، یونین کونسلز مکمل طور پر محصول چونگی کے منشی مافیاز کے حوالے کر دیا گیا۔ صوبائی بجٹ میں بلدیاتی اداروں کے لیے مختص اربوں روپوں فنڈز کی رقوم افسر شاہی نوکر شاہی کی تجوریوں کی نذر ہوگئے ۔ اربوں روپے کے فنڈز غیر ترقیاتی کاموں اور دیگر غیر ضروری اخراجات کی مد میں ضائع و برباد کردیے گئے ۔ 2021 مئی کو خانہ پوری کے طور پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو وقتی طور پر بحال کیا گیا ۔ لیکن بلدیاتی نمائندوں کو کسی قسم کے اختیارات نہیں دیئے گئے ۔ یکم دسمبر 2021 میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کا ایک مرتبہ پھر ڈراما کھیلا گیا ۔ اس بار بھی پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت عدالت عظمیٰ کے حکم عدولی کی مرتکب ہوئی ۔ پنجاب کی بڑی اپوزیشن سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نے آئینی و قانونی جنگ میں بلدیاتی اداروں اور بلدیاتی نمائندوں کا کوئی ساتھ نہیں دیا ۔ اصولی طور پر 14 مئی 2022 کے صوبائی انتخابات سے قبل صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات منعقد ھو جانے چاہئیے تھے ۔ لیکن افسوس کہ الیکشن کمیشن اور اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے نہ ھی اس میں کوئی دلچسپی لی اور نہ ھی کسی موقع پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔ الیکشن کمیشن کو نہ جانے اچانک کیا سوجی کہ حکومت پنجاب کو صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کے فوری انعقاد کا مراسلہ جاری کردیا ہے ۔ جبکہ ابھی تک یونین کونسلز کی ساخت ؤ تشکیل نہیں کی جا سکی ہے ۔ حلقہ بندیاں ھوئی ھیں ، نہ ھی پنجاب لوکل ایکٹ کا مسودہ تیار ھوسکا ھے ۔ رواں مالی سال کے بجٹ کا ابھی اعلان بھی نہیں ھوا ھے ۔ سالانہ صوبائی بجٹ میں مختص کی گئی رقوم کے بغیر پنجاب بھر میں بلدیاتی انتخابات کیسے منعقد ھوسکتے ھیں ۔ بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ شاید پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نتائج دیکھنے کے بعد جزباتی طور پر کیا گیا ۔ ممکن ہے اس کے پیچھے سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے کا کوئی اندیشہ لاحق ہو ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز دانشمندانہ فیصلوں کی بجائے اپنی گڈ گورننس جلدی پیش کرنے میں تیزی دیکھانا چاھتی ھیں ۔ لیکن یہ تیزی نقصان دہ بھی ثابت ھو سکتی ھے۔ اس سے کئی قسم کے سیاسی مسائل اور چلینجزز بھی پیش آسکتے ہیں ۔ ھوسکتا کسی طاقت ، کسی طاقتور بااثر شخصیت نے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو شاندار کامیابی کا پختہ یقین دلایا ھو ۔ خدا نخواستہ یہ اندیشہ درست ھے تو پھر آئندہ کے متوقع بلدیاتی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر فارم 47 اپنی کرامات اور کرشمے دیکھانے کے بے چین اور بےتاب ھوگا ۔ کیونکہ الیکشن کمیشن ایک ٹول بن کر رہ گیا ھے ۔ اس کا ریموٹ کنٹرول اب اس کے اپنے ھاتھ میں نہیں رھا ھے ۔ الیکشن کمیشن کا ریگولیٹر اب کوئی اور ھی دیکھائی دے رھا ھے ۔ دلچسپ اور غور طلب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اہنی جماعت کا پارٹی ٹکٹ مستقبل کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے خوشامدیوں ، شاہ پرستوں ، بدنام زمانہ سابق نمائندوں کو دیتی ہے یا پھر میرٹ کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ن لیگ کے اھل مخلص کارکنان کو ٹکٹ جاری کرتی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران اسکا پتہ چل جائے گا ۔ ن لیگ کی ساری سیاسی حکمت عملی، سیاسی سوچ ، جمہوریت پسندی کھل کر خود بخود سامنے اجائے گی ۔

نوٹ: ادارہ کا کالم نگار کیساتھ متفق ہونا ضروری نہیں۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button