کالم

ایرانی صدر کا پاکستانی دورہ، فلسطین و اسرائیل کشیدگی، ہماری ترجیحات، گیس پائپ لائن پر کیا بات ہوئی؟

تجزیاتی رپورٹ ( طارق محمود جہانگیری کامریڈ) ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اپنے تین روزہ دورے پر23 اپریل کو کراچی پہنچے۔اپنے دورے کے پہلے روز انھوں نے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں جن کے دوران سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات، نئے اقتصادی زونز قائم کرنے سمیت آٹھ مختلف معاہدوں پر دستخط کیے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایسے وقت پاکستان کا دورہ کیا جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور رواں ماہ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر براہ راست فضائی حملے بھی کیے ہیں۔ صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اس لیے اہمیت کا حامل تھا کیونکہ رواں سال جنوری میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں شدید سرحدی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب دونوں ممالک نے ’دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل حملے کیے تھے۔ دونوں ممالک ماضی میں بھی ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ اس دورے کے موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل سے متعلق معاملات بھی زیر غور آئیں گے مگر ایرانی صدر اور پاکستانی صدر وزیراعظم کی مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کا تذکرہ حیران کن طور پر غائب رہا۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں اس منصوبہ کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی کسی وزیر یا مشیر کے بیان میں اس کا تذکرہ سننے کو ملا ھے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر خاموشی اختیار کیوں کی گئی ؟ اسکی وجوہات کیا ہیں؟ کیا پاکستان امریکی دباؤ کی وجہ سے اس پر منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں رھا۔ یہ دونوں ممالک کا ایک سوچا سمجھا اقدام یا ڈپلومیسی پلان تھا؟ لیکن یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ ایرانی صدر کے اس دورہ سے پاکستان کوکیا فوائد حاصل ہوں گے؟ کیا ایک بار پھر ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کو ناکام خارجہ پالیسی اور اس کے مضر منفی سفارتی تعلقات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس منصوبہ کا آغاز پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری ایام میں ہوا تھا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان 7.5 ارب ڈالرز مالیت کا گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح 2013 میں اُس وقت ہوا تھا جب صدر آصف علی زرداری نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ یہ منصوبہ ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث تعطل کا شکار ہو گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں اس منصوبے پر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ پاکستان کی سابق نگران حکومت کی جانب سے فروری میں 80 کلومیٹر کے ایک حصے کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ مگر اس کے فوراً بعد امریکہ کی جانب سے گیس پائپ لائن منصوبے پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ منصوبے پر کام کرتے ہوئے پاکستان کو بھی معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ اس منصوبے پر تاخیر نے پاکستان کو پہلے ہی مشکل صورت میں ڈال رکھا ہے کیونکہ ایک طرف اپنے حصے پر پائپ لائن بچھانے کا کام نہ کرنے پر ایران کی جانب سے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ بھی عائد کئے جانے کے قوی امکانات موجود ھیں۔ موجودہ خراب اور کشیدگی کی صورتحال میں دونوں ممالک کی جانب سے پاک ایران گیس لائن منصوبے کا تذکرہ نہ کرنا ایک عقلمندانہ اقدام اور کامیاب ڈپلومیسی ہے۔ یہ دونوں ممالک کا دانشمندانہ فیصلہ ھے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق دونوں ممالک میں کچھ اہم مسائل ہیں جو ابھی بھی حل طلب ہیں۔ گوادر میں ابھی تک پائپ لائن بچھانے کے لیے زمین کی الاٹمنٹ نہیں بھی نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان پابندیوں کی زد میں آئے بغیر اس منصوبے کو کیسے آگے بڑھا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ دورہ اس وقت شیڈول کیا گیا تھا جب رواں سال کے شروع میں دونوں پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ سرحد پار دہشت گردی اور سمگلنگ کے مسائل دونوں ممالک ایران پاکستان کو قریب لے آتے ہیں ۔ دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات کو جو نقصان پہنچا اُسے دوبارہ سے بحال کرنے کے لیے بھی ایرانی صدر کے دورے کی بہت ضرورت محسوس کی جا رہی تھی ۔ اگر خطے کے موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت ایک تجارتی اور سیاسی بلاک کا وجود ابھر رہا ہے جس میں چین، افغانستان اور ایران موجود ہیں پاکستان کا اس نئے بلاک سے باہر رہنا ممکن نہیں رھا ہے۔ پاکستان اس سے باہر رہنا کیوں چاہیے گا؟ پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ اُس کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔ کچھ اھم سوال بھی ھیں جن پر غور و فکر کرنا ضروری ہے ایرانی صدر کے دورے سے ایران اور اسرائیل کشیدگی کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟ سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنے والا ملک اب اس پر حملہ آور کیوں ہوا؟ بہت سے پاکستانی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ عمران خان نے روس کا اچانک ھنگامی دورہ اس وقت کیا تھا جب تحریک عدم اعتماد اپنے بام عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ اس تحریک کی کامیابی کے امکانات واضح طور پر دیکھائی دے رہے تھے ۔ عمران خان روس اور ایران سے تیل کا معایدہ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت میں معاہدہ کیوں نہیں کیا ؟ چین کا سی پیک منصوبہ پر بھی کام روکا رھا۔ برطانیہ اور امریکہ کا عالمی ایجنڈہ بھی یہی تھا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ اسامہ بن لادن کی وجہ سے کیا تھا ۔ اسامہ جب تک زندہ رھا امریکہ کے عزائم کی تکمیل ہوتی رھی ۔ مرنے کے بعد بھی وہ امریکہ ھی کے کام آیا ۔ صدراتی انتخابات میں بش کو فاہدہ حاصل ھوا ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے منصوبے میں اسامہ بن لادن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ آصف زرداری نے امریکی صدر اوباما کے ساتھ مل کر بڑی مہارت اور خوبصورتی سے پاکستان کی سر زمین پر اسامہ کی ھلاکت کا کامیاب آپریشن کروایا تھا ۔ ایرانی صدر کے دورے اور گیس پائپ لائن منصوبہ کا سہرا بھی آصف زرداری کے سر پر آتا ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کو زیرعتاب لانا بھی حکمت عملی کا حصہ ھوسکتا ھے ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button