24 October is the United Nations Day, what does Qudratullah Shihab reveal about the United Nations?


Qudratullah Shahab won the regular election to the Executive Board of the United Nations 6 سال کے لیے ممبر رہے تھے۔ اپنی کتاب شہاب نامہ میں یونائیٹڈ نیشنز کے بارے میں لکھتے ہیں:
“پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن و امان کو فروغ دینے کے لیے لیگ آف نیشنز وجود میں آئی تھی، لیکن یہ انجمن کفن چوروں کی جماعت ثابت ہوئی اور اقوام عالم کی بہت سی قبریں آپس میں تقسیم کرنے کے بعد اس نے آرام سے جنیوا میں دم توڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تنظیم نو یو این او نے جنم لیا۔ اس ادارے کا رہنما اصول جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ جب کوئی لاٹھی والا طاقتور ملک جارحیت سے کام لے کر کسی چھوٹے اور کمزور ملک کی بھینس زبردستی ہنکا کر لے جاتا ہے تو یو این او فوراً جنگ بندی کا اعلان کر کے فریقین کے درمیان سیز فائر لائن کھینچ دیتی ہے۔ جنگ بندی کے خط پر یو این او کی نامزد فوج اور مبصر متعین ہو جاتے ہیں۔ جو اس بات کی خاص نگہداشت رکھتے ہیں کہ مسروقہ بھینس دوبارہ اپنے ملک کے پاس واپس نہ پہنچنے پائے۔ اس کے بعد یہ سارا معاملہ جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کی قرار دادوں میں ڈھل ڈھل کر نہایت پابندی کے ساتھ یو این او کے سرد خانوں میں جمع ہوتا رہتا ہے۔”
“نیویارک میں جگہ کی کم یابی کے باعث مختلف شعبوں کے اپنے اپنے سرد خانے یو این او کے دم چھلا بین الاقوامی اداروں کے نام سے بہت سے دوسرے یورپی ممالک میں قائم ہیں۔ غالباً سیاسی گرد و غبار موسمیاتی تپش و حرارت اور ناخواندگی و افلاس کی گرم بازاری کے پیش نظر مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید سمیت کسی افریقی اور ایشیائی ملک کو اقوام متحدہ کے کسی بڑے ذیلی ادارے سے نہیں نوازا گیا۔ البتہ ابھی حال ہی میں Prog کے متعلق ایک بین الاقوامی ادارہ نیروبی میں قائم ہوا ہے۔ جس کی وجہ غالباً یہی ہو سکتی ہے کہ وہ عین خط استوا کے قریب واقع ہے۔”
“اقوام عالم میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کی ترقی و تعمیر و ترویج کے لیے یو این او کا جو ادارہ پیرس میں قائم ہے اس کا نام یونیسکو (UNESCO) Is. (United Nation’s Education, Science and Culture Organization)”
“اس کا ایک خاص طرۂ امتیاز یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے بجٹ کا تقریباً دو تہائی حصہ پیرس میں متعین اپنے ہیڈ کوارٹر اسٹاف پر صرف کرتا ہے اور باقی ایک تہائی حصہ ساری دنیا میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے فروغ پر لگاتا ہے۔ یعنی سارے عالم میں تیس روپے کے تعلیمی سائنسی اور ثقافتی پروگراموں پر عمل درآمد کے لیے یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں بیٹھے ہوئے اسٹاف پر ستر روپے خرچ کرتا ہے۔”
“شروع میں یونیسکو کا ہیڈ کوارٹر ایک پانچ منزلہ عمارت میں سمایا ہوا تھا۔ جوں جوں یونیسکو کا بجٹ بڑھتا گیا، اسی رفتار سے اس کے عملے میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک دوسری عمارت بھی تعمیر ہوئی جس کی بلندی گیارہ منزلہ ہے۔ سنا ہے کہ بتدریج بڑھتے ہوئے اسٹاف کی ضروریات کے لیے دو عمارتیں بھی اب ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مضافات میں ایک نہایت خوبصورت محل نما وسیع و عریض بنگلہ بھی ہے جو خاص الخاص لوگوں کے لیے مناسب اوقات پر عیش و نشاط فراہم کرنے کے کام آتا ہے۔”
“یونیسکو کی یہ ترقی معکوس اس کے ایک فرانسیسی ڈائریکٹر جنرل موسیو رینے ماہیو کے زمانے میں ہوئی۔ یہ صاحب نیچے درجے کی اسامیوں سے ترقی کرتے کرتے اس عہدہ جلیلہ پر پہنچے تھے اور پورے بارہ برس تک یونیسکو کے سیاہ و سفید پر چھائے رہے۔”
“یو این او کے دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرح یونیسکو کی خود مختاری ہر نوعیت کے احتساب سے بالا تر ہے۔ رینے ماہیو جیسا کائیاں ڈائریکٹر جنرل یونیسکو میں دونوں سپر پاورز کی ترازو کے پلڑے قریباً قریباً ہم وزن رکھتا تھا۔ دوسرے ممالک کے نمائندے اگر کسی موضوع پر کوئی حرف شکایت زبان پر لاتے تھے تو ان کا منہ بند کرنے کے لیے سیکرٹریٹ میں ملازمتوں کی رشوت فوراً کام آتی تھی۔ کچھ لوگ دنیا بھر میں سفر کرنے والے کمشنوں اور کمیٹیوں میں شمولیت پر ہی آسانی سے ٹرخا دیئے جاتے تھے۔ بعض لوگوں کی قیمت صرف اتنی تھی کہ وہ وقتاً فوقتاً یونیسکو کے خرچ پر پیرس آتے جاتے رہیں۔ ان حربوں سے ہر طرح کی تنقید و تنفیص کا راستہ بند کرنے کے بعد جزل کانفرنس اور ایگزیکٹو بورڈ کا کوئی اجلاس ڈائریکٹر جنرل کا ہال تک بیکا نہ کر سکتا تھا۔”
“خود حفاظتی کا یہ حصار کھینچ کر موسیو رینے ماہیو نے بارہ برس تک یونیسکو میں اپنی اندر سبھا قائم کئے رکھی۔ ان کا زمانہ اخلاقی اقدار کی پامالی، نا انصافی، خویش پروری اور جنسی بے راہروی کا دور تھا۔ انہوں نے اپنی ایک داشتہ کو اپنے ذاتی عملے میں ایک بڑی اسامی پر مامور کر رکھا تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرا بہت سا اسٹاف بھی اسی دوش پر چل نکلا۔ جب میں پہلی بار یونیسکو کی جزل کانفرنس میں شریک ہونے پیرس گیا، تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دفتر کے بہت سے کابک نما کمروں میں ایک ایک مرد کے سامنے ایک ایک عورت سج دھج کر بیٹھی ہے اور دونوں ٹکٹکی باندھے ایک دوسرے کی جانب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق لگاتار دیکھ رہے ہیں۔ یونیسکو کی غلام گردشوں میں گھومتے پھرتے یہ بھی نظر آیا کہ کہیں کہیں یہ جوڑے اس محویت کے عالم میں سارا سارا دن آمنے سامنے گلدانوں کی طرح سجے رہتے تھے۔ اس زمانے میں یہ دستور عام تھا کہ یونیسکو کے کئی منچلے انٹر نیشنل سول سرونٹ اپنی محبوباؤں کو سیکرٹری کے طور پر بھرتی کر کے اپنے دفتر کے کمرے کی زینت بنا لیتے تھے۔ انہی دنوں فرانس میں ایک اسٹیج ڈرامہ انتہائی مقبول ہو رہا تھا جس کا موضوع پیرس کی سڑکوں پر ٹریفک کے ہجوم کی وجہ سے مرد حضرات کی بے بسی اور بے چارگی تھا۔ ڈرامے کا مرکزی کردار ایک بین الاقوامی ادارے (غالباً یونیسکو) کا ملازم تھا جس کی ایک بیوی گھر میں منتظر ہوتی تھی۔ ایک داشتہ کو دفتر سے گھر پہنچانا ہوتا تھا اور اس کے بعد پیرس کے مضافات میں دوسری داشتہ سے ملنے کے لیے جانا بھی ہر روز لازمی تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک جام اس مظلوم عاشق مزاج بین الاقوامی سول سرونٹ کے پروگرام کو اس قدر درہم برہم کر دیتا تھا کہ اس کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی جاتی تھی۔ جس میں شیرینی گھولنے کے لیے یونیسکو کا بجٹ ہر سال اس کی تنخواہ اور دیگر مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کرتا رہتا تھا۔ جس طرح ڈائریکٹر جنرل اپنی من مانیاں کرنے میں مختار کل تھا، اسی طرح اس کا منظور نظر عملہ بھی اپنے ماتحتوں پر ہر طرح کی مشق ناز آزمانے میں آزاد تھا۔ لیکن فرعونے رامو سے، رینے ماہیو کی فرعونیت کا طلسم توڑنے کے لیے یونیسکو میں احتجاج اور مزاحمت کی جو آواز اٹھی، وہ ایک پاکستانی کے مقدر میں لکھی تھی۔ ان کا نام نسیم انور بیگ ہے۔ نسیم بیگ گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک ممتاز طالب علم تھے۔ وہ اپنے زمانے کے نہایت نامور مقرر تھے اور طلباء کے آل انڈیا مباحثوں میں حصہ لے کر بہت سی ٹرافیاں جیت چکے تھے۔ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے لاہور لاء کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن بھی تھے اور تحریک پاکستان میں طلباء کے کردار کے بارے میں قائداعظم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمت میں کئی بار حاضر ہو چکے تھے۔ 1947 میں لاہور میں خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ لے کر وہ کچھ عرصہ تک جیل میں بھی رہے تھے۔ ۱۹۵۴ء میں وہ انٹر نیشنل سول سروس میں داخل ہو کر یونیسکو کے ہیڈ کوارٹر میں آ گئے۔ یہاں پر وہ کئی برس متواتر یونیسکو اسٹاف یونین کے صدر منتخب ہوتے رہے۔ ملازمین کے حقوق کی حفاظت کے لیے انہوں نے جس دور اندیشی اور جرات مندی کا مظاہرہ کیا اس کی دھوم یو این او کے تمام بین الاقوامی اداروں میں پھیل گئی اور یونائیٹڈ نیشن کے تمام اداروں کی یونینوں کی فیڈریشن نے بھی ان کو کافی عرصہ تک اپنا مشترکہ صدر منتخب کئے رکھا۔ اس حیثیت میں نسیم بیگ کا یونیسکو کے آمرانہ ڈائریکٹر جزل رینے ماہیو کے ساتھ کئی بار شدید ٹکراؤ ہوا۔ اس قسم کے ہر تصادم میں ڈائریکٹر جنرل نے ہمیشہ منہ کی کھائی اور ذاتی سطح پر اس نے نسیم بیگ کی ملازمت میں ہر طرح کے رخنے ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ نسیم بیگ صاحب کی ہمت تھی کہ ڈائریکٹر جنرل کی انتقامی کاروائیوں کو خاطر میں لائے بغیر وہ اپنے عدل و انصاف کے موقف پر کامیابی سے ثابت قدم رہے اور یونیسکو میں تیس سالہ بے لوث خدمت کی روایات چھوڑ کر ابھی حال ہی میں وہاں سے ریٹائر ہوئے ہیں۔”
“اکتوبر ۱۹۶۸ء میں مجھے پاکستانی وفد کا سربراہ بنا کر یونیسکو کی جزل کانٹرنس میں شرکت کے لیے پیرس بھیجا گیا تھا۔ وہاں پر میں نے یہ چلن دیکھا کہ تقریباً ہر ملک کے وفد کا قائد زبانی کلامی تو ڈائریکٹر جنرل کے خلاف بڑھ چڑھ کر تنقید و تنقیص کرتا ہے۔ لیکن اسٹیج پر آ کر اپنی تقریر میں اس کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منافقت اور خوشامد کے اس گھٹیا معیار نے ایک بندھی بندھائی رسم کے صورت اختیار کر رکھی تھی۔ ریا کاری کی اس بدعت کو توڑنے کا موقع حسن اتفاق سے میرے ہاتھ آگیا۔ میں نے اپنی تقریر میں اعداد و شمار اور حقائق و شواہد کو بنیاد بنا کر یونیسکو کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی بد نظمیوں، بد عملیوں، نا انصافیوں، فضول خرچیوں ، بد اعتدالیوں اور عیاشیوں کا تفصیل کے ساتھ پردہ چاک کیا۔ یہ باتیں سن کر چند لمحے تو ہال میں گہرا سناٹا چھایا رہا۔ لیکن اس کے بعد زبردست تالیوں کے ساتھ ایک ایک فقرے کی یوں پذیرائی ہوئی جیسے مشاعروں میں اشعار پر داد ملتی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینے ماہیو بھی اسٹیج پر بیٹھا تھا۔ میری تقریر سن کر وہ اتنا بے چین ہوا کہ اس نے پے در پے اورنج جوس کے چار یا پانچ گلاس نوش کئے اور تقریر ختم ہوتے ہی غیظ و غضب کے عالم میں بھنایا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔”
“اسی جزل کافتراس کے دوران ایگزیکٹو بورڈ کی چند خالی نشستوں کے لیے انتخاب بھی منعقد ہونے والا تھا۔ ایک نشست کے لیے انتخاب لڑنے کا میں بھی امیدوار تھا۔ ہندوستان، روس اور امریکہ تینوں میری مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ ہندوستان تو صرف اس لیے میرے خلاف تھا کہ میں پاکستانی ہوں، لیکن روس اور امریکہ کے پاس ناراضگی کی یہ مشترکہ وجہ تھی کہ چین کو یونیسکو کا ممبر بنانے کی مہم میں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ کو یہ شکایت بھی تھی کہ یروشلم اور مقبوضہ عرب علاقوں میں اسلامی تاریخی آثار اور اسلامی ثقافت کے نشان کو مسخ کرنے اور مٹانے پر میں اسرائیل کے خلاف شدید احتجاج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا۔ اب اس پر مستزاد یہ کہ ڈائریکٹر جنرل بھی میری مخالفت پر آمادہ ہو گیا۔ اس نے اپنے حواریوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ وہ ہر قیمت پر مجھے ایگزیکٹو بورڈ میں آنے سے روکیں۔”
“مخالفانہ قوتوں کے اس بھاری بھر کم صف آرائی کے مقابلے میں میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا۔ نسیم انور بیگ نے اپنا اثر و رسوخ بھی میرے حق میں بے دریغ استعمال کیا، اور اپنے دفتر کا کمرہ عملی طور پر میری انتخابی مہم کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ پاکستانی وفد کے تین اراکین تنویر احمد خان، عبداللطیف مرحوم اور ڈھاکہ کی بیگم رقیہ کبیر نے دن رات کی محنت اور جانفشانی سے انتہائی مفید کام کیا۔ خوش قسمتی سے انہی دنوں عرب ممالک نے جنرل کانفرنس میں یہ قرار داد پیش کر رکھی تھی کہ یونیسکو میں انگریزی، فرانسیسی ہسپانوی اور روسی زبانوں کی طرح عربی کو بھی بین الاقوامی زبان کا درجہ دیا جائے۔ امریکہ، برطانیہ اور تمام یورپی ممالک اپنے حواریوں سمیت اس تجویز کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ کسی قدر تیاری اور محنت کے بعد میں نے ہر موقع پر عربی زبان کے حق میں ایسی تقریریں کیں کہ عرب ممالک کے وفود نے مطمئن ہو کر یونیسکو میں اس تحریک کی قیادت میرے اوپر چھوڑ دی۔ ساتھ ہی مجھے معلوم ہوا کہ ہر طرح کے دباؤ اور مخالفت کو نظر انداز کر کے عرب ممالک کا پورا گروپ ایگزیکٹو بورڈ کے الیکشن میں مجھے ووٹ دینے پر رضا مند ہے۔ اس طرح افریقہ اور لاطینی امریکہ کے گروپوں کی جانب سے بھی میں اشارے ملے کہ وہ بھی میرے حق میں ووٹ دینے پر متفق ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ایگزیکٹو بورڈ میں وہ ایک ایسا شخص بھیجنا چاہتے تھے جو ڈائریکٹر جنرل کی آمریت اور بد عنوانیوں پر کھل کر بات کر سکے۔ یہ ساری وجوہات اندازے اور قیاس آرائیاں محض طفل تسلیاں تھیں۔ اصل بات صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہا اور جب الیکشن ہوا تو میں ۱۱۷ میں سے ۹۱ووٹ حاصل کر کے چھ برس کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کا ممبر منتخب ہو گیا۔”
“ایگزیکٹو بورڈ کے ممبر کی حیثیت سے مجھے یونیسکو کے ظاہر اور باطن کو اچھی طرح کھنگالنے کا موقع نصیب ہوا۔ مجموعی طور پر میں نے اس کا اندر اور باہر کھوکھلا کر دیا۔ گرمی گفتار اس کی روح اور چھپا ہوا کاغذ اس کا پیرہن ہے۔ اس کی چار دیواریوں میں ہر دوسرے برس تحریری اور تقریری الفاظ کا سیلاب طوفان نوح کی طرح اٹھتا ہے اور نیا بجٹ اور پروگرام منظور ہوتے ہی دفعتاً فرو ہو کر زیر زمین غائب ہو جاتا ہے۔ یونیسکو کی تحریر اور تقریر کی اپنی مخصوص زبان پر اپنا لہجہ اپنی اصطلاح اور اپنا اسلوب ہے۔ اس ادارے کا سب سے نمایاں خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اس کے زیر سایہ تقریباً ڈھائی تین ہزار ملازمین پیرس کے سیکرٹریٹ میں اور تقریباً ڈیڑھ دو ہزار افراد دنیا کے دوسرے حصوں میں اچھی تنخواہوں پر آرام اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد نہایت عمدہ پینشن پاتے ہیں۔ یونیسکو کے اسی ایک کام کو غالباً اس کا سب سے بڑا فلاحی اور تعمیری درجہ دیا جا سکتا ہے۔”
“ایک بار نوجوانوں کے مسائل پر سوچ بچار کرنے کے لیے یونیسکو کے زیر اہتمام پیرس میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ اس میں حصہ لینے کے لیے دنیا بھر سے جو نمائندے مدعو کئے گئے، ان سب کی عمر ساٹھ برس سے اوپر تھی۔ ایگزیکٹو بورڈ کے ممبر کی حیثیت سے میں بھی اس میں شریک ہوا۔ میری عمر بھی اس وقت ا۵ برس کے قریب تھی۔ اس کے باوجود میں اس سیمینار کا سب سے کم عمر ڈیلیگیٹ تھا۔ میں نے سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں یہ پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا کہ یہ انتہائی غیر نمائندہ اجلاس ہے کیونکہ پچاس ساٹھے برس سے اوپر والی عمر کے لوگ آج کل کی نوجوان نسل کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس پر بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ تماشائیوں کی صف سے کچھ نوجوان کود کر ہال میں آ گئے اور انہوں نے الٹی میٹم دیا کہ جب تک نئی نسل کے نمائندوں کو اس سیمینار میں شامل نہیں کیا جاتا، وہ اس اجلاس کی کارروائی کو جاری رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجبوراً ان کی شرط مانی گئی اور نوجوانوں کی بعض تنظیموں کے نمائندوں کو بھی سیمینار کے اجلاس میں شامل کیا گیا۔”
“سیمینار میں ایک مقالہ میں نے بھی پڑھا۔ اس کا ایک حصہ کچھ علمی طبقوں میں کسی قدر پسند کیا گیا۔ خاص طور پر یورپ میں نوجوانوں کی کئی تنظیموں نے اس کی کئی زبانوں میں خاصی تشہیر کی۔”
“یونیسکو کے اسٹاف میں ایک اسامی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی بھی تھی۔ ایک بار موسیو رینے ماہیو کے سر پر بھوت سوار ہو گیا کہ اس کے نیچے ایک کی بجائے دو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہونا چاہئیں۔ دوسری اضافی اسامی کی نہ کوئی ضرورت تھی، نہ کوئی جواز تھا۔ بات صرف یہ تھی کہ وہ اپنے کسی منظور نظر کو خواہ مخواہ ترقی دے کر اس عہدے پر فائز کرنا چاہتا تھا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی دوسری اسامی کی منظوری کے خلاف ایگزیکٹو بورڈ میں بڑی لے دے ہوئی۔ رینے ماہو اس تجویز کو جنرل کونسل میں لے گیا۔ حسن اتفاق سے وہاں پر تقریر کرنے کے لیے پہلے میری باری آئی۔ میں نے انتظامی لحاظ سے اعداد و شمار کا تجزیہ کر کے اس تجویز کی شدید مخالفت کی اور اپنی تقریر ان الفاظ پر ختم کی۔
If You have two bottle necks instead of one, does it really double the capacity of the bottle Please answer this question. Mr. Director General”
“میری تقریر کا یہ فقرہ چل نکلا۔ میرے بعد بہت سے مندوبین جو اس مسئلہ پر تقریر کرنے آئے ان میں سے ہر ایک نے یہ سوال ضرور دہرایا۔ صبح سے شام تک سارا دن سے فقرہ سنتے سنتے ڈائریکٹر جنرل کے اعصاب جواب دے گئے اور ووٹ اندازی سے پہلے ہی اس نے اپنی تجویز واپس لے لی۔”
“فلسطینی مہاجرین کے بچوں کے لیے یونیسکو نے اپنے خرچ پر یروشلم، دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بہت سے اسکول کھول رکھے تھے۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ مسلمان اساتذہ بھی یونیسکو کی منظوری سے تعینات ہوتے تھے اور ان میں جو درسی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، وہ بھی یونیسکو کی جانب سے منظور شدہ ہوتی تھیں۔ جب یروشلم سمیت ان علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تو رفتہ رفتہ یہ خبریں آنے لگیں کہ اسرائیلی حکومت نے ان سکولوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یونیسکو کے متعین کردہ مسلمان اساتذہ کو زبردستی گھر بٹھا دیا گیا ہے۔ ان کو تنخواہ تو باقاعدہ ملتی ہے، لیکن کسی اسکول کے قریب تک آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی استاد کسی جگہ حرف شکایت زبان پر لاتا ہے، تو وہ اپنے بال بچوں سمیت ناقابل بیان مظالم اور تشدد کی زد میں آ جاتا ہے۔ ان مسلمان اساتذہ کی جگہ ہر اسکول میں اب کٹر یہودی اسٹاف فلسطینی مہاجر بچوں کو پڑھانے پر مامور ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر اسکول سے یونیسکو کی منظور شدہ درسی کتابیں بھی نصاب سے خارج کر دی ہیں۔ اور ان کی جگہ اب ایسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں اسلام سیرت مبارکہ اور عرب تاریخ و ثقافت کے خلاف انتہائی گمراہ کن غلیظ اور شرمناک پروپیگنڈا ہوتا ہے۔”