کالم

شب براءت یعنی لیلۃ البراءت

تحریر:علامہ ڈاکٹرمحمد عدنان فاروق دانش

94 نیوز۔ اس شب کو ابتدائے اسلام سے عبادت کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ شب براءت کیا ہے؟

لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور براءت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی (اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے ۔

اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض پر فضیلت و رتبہ عطا فرمایاہے۔ جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادیِ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئر زمزم کو تمام کنوؤں پر، مسجد حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مؤمن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مؤمنوں پر، صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت کے حامل ہیں۔

اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے۔ یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برأت کو دیگر راتوں پر فضیلت دی ہے۔

اَحادیث مبارکہ سے شعبان المعظم کی 15 ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔

اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں: لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات

لیلۃ البراء ۃ: دوزخ سے آزادی ملنے کی رات۔

لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات۔

لیلۃ الرحمۃ: اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات

سرکارِ مدینہ      صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(ترمذی) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا  مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی )معلوم ہوا کہ شب براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔

اس رات اکیلے عبادت کرنا اور اجتماعی طور پر عبادت کرنا دونوں ہی طریقے ائمہ سے ثابت ہیں۔ اس رات جاگنا، عبادت کرنا چونکہ مستحب عمل ہے، لہٰذا ہماری رائے کے مطابق اسے انسانی طبیعت اور مزاج پر چھوڑنا چاہیے، جس طریقہ میں کسی کی طبیعت اور مزاج کیف و سرور اور روحانی حلاوت محسوس کرے اسے چاہیے کہ وہ وہی طریقہ اختیار کرے۔ کیوں کہ اس رات کا اصل مقصود تزکیہ و تصفیہ قلب ہے۔ سو جسے جس طریقہ میں حلاوت ایمانی نصیب ہو اسے اسی پر عمل کر لینا چاہیے۔ بعض لوگوں کی طبیعت خلوت پسند ہوتی ہے اور انہیں تنہائی میں عبادت اور گریہ زاری کرنے سے حلاوت و سکون اور ذہنی یکسوئی ملتی ہے، سو وہ اس طریقہ کو اختیار کرلیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس کے برعکس بعض لوگ اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں زیادہ آسانی اور راحت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے اس طریقے پر عمل کرنے میں رخصت ہونی چاہیے کیوں کہ یہ عمل بھی ائمہ سے ثابت ہے۔

بلکہ آج کا دور چونکہ سہل پسندی اور دینی تعلیمات سے بے راہ روی کا دور ہے، اس دور میں وہ لوگ بھی کم ہیںکہ جن کے گھر اور راتیں قیام اللیل کے نور سے جگمگاتی ہیں۔ اور طبیعتوں میں اتنی مستقل مزاجی بھی نہیں رہی کہ لوگ گھروں میں رات بھر جاگ کر چستی و مستعدی سے عبادت و اذکار ادا کر سکیں۔ تنہائی میں کچھ دیر عبادت سے ہی سستی اور نیند کے ہتھیار کے ذریعے شیطان لعین ان پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اگر اجتماعی عبادت سے لوگوں میں دین سے رغبت اور عبادت میں مستعدی پیدا ہوتی ہے تو ان کے لیے اجتماعی طور پر عبادت کرنا مستحسن عمل ہے۔

اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں تعلیم و تربیت کا عمل بھی پایا جاتا ہے۔ دینی تعلیمات اور نوافل و اذکار کی ادائیگی سے بے بہرہ لوگ بھی آسانی سے اجتماعی عمل میں شریک ہوکر اپنی عبادات کی ادائیگی کرلیتے ہیں اور جو چیزیں معلوم نہیں ہوتیں وہ جان لیتے ہیں۔

اس اَمر کا خیال رہے کہ اجتماعی عبادات کسی عالم باعمل کی زیر تربیت و نگرانی ہونی چاہیے،جو لوگوں کی فکری اور روحانی ہر دو حوالوں سے تربیت و اصلاح بھی کر سکے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،

ایک رات میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع (قبرستان) میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔

شبِ برأت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے "جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس حدیث پر مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں اور دن میں روزے کا ۔

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button