بین الاقوامی

سپاہیوں کو سوشل میڈیا سے دور نہیں رکھا جاسکتا، بھارتی آرمی چیف

بھارتی آرمی چیف بپن روات نے فوجی اہلکاروں کو اسمارٹ فونز استعمال کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کو پراکسی وار کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جنرل بپن روات نے تینوں مسلح افواج کے سینئر عہدیداروں کی جانب سے ‘سوشل میڈیا اینڈ آرمڈ فورسز’ کے موضوع پر ترتیب دی گئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فوج کو سوشل میڈیا کے استعمال پر زور دیا۔

جنرل بپن روات نے کہا کہ سپاہیوں کو اسمارٹ فونز کے استعمال سے روکا نہیں جاسکتا کیونکہ سوشل میڈیا کو نفسیاتی جنگ، پراکسی وار، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی ہیڈکوارٹر کو سوشل میڈیا کے تمام پہلووں سے فائدہ اٹھانے والی تنظیم کے طور ڈھالنے کے لیے تحقیق کی جارہی ہے۔

بھارتی فوجیوں اور افسران کی ویلفیئر کے لیے تخلیق کیے گئے موبائل ایپ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے لیے ایپ بنادی گئی ہے تو انہیں اسمارٹ فون کے استعمال سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔

بپن روات نے کہا کہ اگر مسلح افواج، جس طرح سوشل میڈیا ترقی کررہا ہے اسی رفتار اور وقت کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں، تو پھر وقت کے ساتھ چلنے میں یہ ‘فائر فائٹنگ’ ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا روایتی جنگ سے ہٹ کر نفسیاتی اور پراکسی جنگ کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ‘اس کو انجام دینے کے لیے ہمیں ہر سطح پر ایک تنظیم کی ضرورت ہوگی اور اسی کے پیش نظر ہم نے آرمی ہیڈکوارٹر کے اندر ہی نئی ڈھانچے کے لیے ایک تحقیق شروع کر رکھی ہے’۔

آرمی ہیڈ کوارٹر میں سوشل میڈیا کے استعمال کے مختلف پہلووں سے ہونے والی تحقیق سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس بات کو کیسے یقینی بنائیں گے کہ سوشل میڈیا ہماری جنگی حکمت عملی میں معلومات کے لیے ایک اہم ذریعہ بن جاتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ ‘کیا ہمیں ایک ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن وارفیئر کی ضرورت ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم یہ بھی دیکھ رہے کہ ‘کیا موجودہ چند وسائل کو ملا کر اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا ہماری فوجی زندگی میں اہک اہم جز بن سکتا ہے’۔

خیال رہے کہ فوجی اہلکاروں کو ان کے کام کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اسمارٹ فونز استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button