قومی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد (94 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس 2022 کالعدم قرار دے دیا،

اسلام آباد ہائیکورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، فیصلے میں پیکا آرڈیننس 2022 خلاف آئین قرار دیا گیا۔چیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے محفوظ فیصلہ سنایا۔

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پی بی اے کی درخواستوں میں ایف آئی اے سے رپورٹ طلب کی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی ، جہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے کہا کہ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس پر دلائل دینا چاہتا ہوں ، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت تو خود آرڈیننس پر عملدرآمد روکنے کا بیان دے چکی ہے ، اس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 94 ہزار کیسز ہیں 22 ہزار کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کی اتنی استعداد ہی نہیں ہے وہ اتنے تربیت یافتہ ہی نہیں ہیں ، ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کی ساکھ کے تحفظ کیلئے مخصوص کاروائیاں کیں ، ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کی ساکھ کے تحفظ کیلئے نہیں ہے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس عدالت کے سامنے 22 ہزار میں سے صرف چار پانچ کیسز ہیں ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک پبلک آفس ہولڈر نے 9 بجے اسلام آباد میں شکایت درج کرائی ، ایف آئی اے نے مقدمہ لاہور میں درج کرکے اسی وقت اسلام آباد میں چھاپے بھی مارے ، کیا یہ عدالت اس طرح کے اقدام کی اجازت دے سکتی ہے؟ آپ کے سیکھتے سیکھتے لوگوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔
یہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالتیں موجود ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اسی لئے ایف آئی اے نے ایس او پیز جمع کراکے عدالت سے فراڈ کیا ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے موقف اپنایا کہ سوشل میڈیا بہت خطرناک ٹُول ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا کو کیوں قصوروار ٹھہرائیں؟ بندوق سیلف ڈیفنس کیلئے ہوتی ہے لیکن کسی بندر کے ہاتھ دے دیں تو وہ خطرناک ہے ، کیا آئین یا قانون توڑنے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ سوسائٹی میں عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے ، اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے ، ان کیسز میں اختیارات کا غلط استعمال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں؟ ایف آئی اے اختیارات کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button