کالم

مظلوم فلسطینی، اسرائیلی وحشیانہ کاروائیاں، دنیا کے منصفوں کا دوھرا معیار، مسلمان حکمرانوں کی خاموشی، پاکستانی قوم کی بے خبری افسوسناک ہے

خصوصی رپورٹ 94 نیوز (طارق محمود جہانگیری کامریڈ) فلسطینی وزارت صحت نے گزشتہ روز مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج حکام کے مظالم اور وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ پٹی کے مقتولین کے بارے میں دل خراش تفصیلات جاری کی ھیں۔ ہلاکتوں کی یہ تفصیلات دنیا کے منصفوں ، امن و سلامتی کے ضامن ممالک کے لیے ایک آئینہ اور ان کے سیاہ چہروں پر ایک زور دار طمانچہ، ایک تھپڑ ھے ۔ مسلمان حکمرانوں اور تمام مسلم ممالک کے ضمیر کو جگانے کے لیے ایک جھٹکا ھے۔ فلسطینی وزارت صحت کی تفصیلات اور اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے 29 اپریل 2024 تک غزہ پر اسرائیلی حکام کی وحشیانہ کارروائیوں ، اور حملوں کے نتیجے میں کم از کم 34 ہزار 388 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 6 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران کم از کم 77ہزار437 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی اور بلاک ھونے والوں لاوارث مظلوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں اور گھروں کا ملبہ ہٹانے میں 14سال لگ سکتے ہیں. اقوام متحدہ نے بھی سروے رپورٹ کی تصدیق کردی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کے گولہ بارود، فضائی اور زمینی ظالمانہ کارروائیوں کے سبب غزہ میں ہونے والی بدترین تباہی کے بارے میں اقوام متحدہ حکام نے خود تسلیم کیا ھے کہ غزہ سے ملبہ اٹھانے میں 14 سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف اقوام متحدہ نے گزشتہ جمعہ کو اپنے ایک بیان میں کیا۔ اقوام متحدہ کے امن پسندوں اور سلامتی کے ضامنوں نے جرم کا اعتراف کرتے ھوئے کہا کہ پورے غزہ میں ہر طرف ملبے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ جس کا اندازہ 37 ملین ٹن کے لگ بھگ لگایا ھے ۔ امن و سلامتی کی دعوےدار تہذیب یافتہ قوتیں اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ 7 اکتوبر سے اب تک تقریباً 6 ماہ کے دوران اسرائیلی فوجی حکام کی غزہ پر وحشیانہ فضائی کارروائیوں اور زمینی حملوں نے فلسطین میں ہر طرف تباہی پھیلا دی ہے۔ 23 لاکھ سے زیادہ کی آبادی کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت 15 لاکھ فلسطینی رفح بستی کے پناہ گزین کیمپوں میں بےرحم کھلے آسمان کے نیچے موت کے منتظر ہیں۔ غزہ کی آبادی دنیا کی شہری آبادیوں میں سے گنجان آباد ترین آبادی تھی۔ جسے اسرائیلی وحشی درندوں نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔اسی وجہ سے لاوارث فلسطین رفح میں پناہ لینے پر مجبور ھوگیے ھیں ۔ اسرائیلی فوجیوں نے اب رفح پر بھی کارروائیاں شروع کر دی ھیں ۔ معتدل سنجیدہ مغربی میڈیا کی خبروں اور رپورٹس کے مطابق فلسطین پر اسرائیلی کی کھلی جارحیت کے خلاف امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ھوگیا ھے۔ مظلوم لاوارث فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے امریکا اور فرانس کے بعد آسٹریلیا کی یونیورسٹی تک پھیل گئے ہیں۔ عرب میڈیا اور الجزائر ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے احتجاجی کیمپ لگا لیے ہیں۔ طلبہ کی جانب سے آسٹریلوی وزیراعظم کی اسرائیل اور غزہ کے بارے میں پالیسی کے خلاف نعرے بازی کی گئی ۔ مظاہرین کی جانب سے آسٹریلوی حکومت سے غزہ کی ہرتشدد فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ھے ۔ طلبہ نے حکومت سے مزید مطالبہ کیا کہ اسرائیل سے منسلک کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کی جائے۔

غیر ملکی میڈیا اور خبر رساں اداروں کی اطلاعات و نشریات کے مطابق امریکی یونیورسٹیوں میں چار دن قبل فلسطین کے حق میں کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے ہونے والے مظاہرے ملک بھر میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ امریکا کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی حکام نے دو روز پہلے تک قریباً 275 احتجاجی مظاہرین طلبہ ، استادوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بیشتر کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے ۔ یہ احتجاجی مظاہرے بڑی تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے کرنے والے طلبہ کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تک بدستور جاری وساری ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز ہارورڈ یونیورسٹی میں مظاہرین نے آئیوی لیگ اسکول میں فلسطینی پرچم لہرا دیا ۔ خبر ھے کہ وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن کے سالانہ عشائیہ کے مقام واشنگٹن ہلٹن ہوٹل کی اوپری منزل کی کھڑکی سے بھی فلسطین کا بہت بڑا جھنڈا لہرایا گیا ۔ یہ افواہیں گردش کررھی ھیں کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا امکان ھے ۔ اسرائیلی عوام اپنے وزیر اعظم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ھے۔ احتجاجی مظاہرین نے جنگ بندی اور انتخابات کا مطالبہ کر دیا ھے ۔ اس احتجاجی مظاہروں سے اسرائیلی و امریکی حکام پریشان دیکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی تبلایا جارھا ھے کہ اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے پر گوگل نے مزید 20 ملازمین فارغ کر دیئے ہیں۔ امریکہ میں بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی ، سینٹ لوئس واشنگٹن یونیورسٹی، ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی اور انڈیانا یونیورسٹی کے طالب علموں کی گرفتاری کا سلسلہ روک نہیں پا رہا ھے ۔ اب تک سینکڑوں طلبہ کو گرفتار کیا جا چکا ھے ۔ دوسری جانب اسرائیل کے حامی اور فلسطینی حامی مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ھوررھی ھیں۔ ملک گیر مظاہروں نے امریکی صدر جو بائیڈن کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے اور وائٹ ہاؤس کو پرامن مظاہرے رہنے کی ھدایات جاری کرنا پڑ گئی ھیں ۔ حالیہ احتجاجی مظاہرے یونیورسٹی منتظمین اور انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں ۔ یہ ریلیاں یہود دشمنی اور نفرت انگیز تقاریر کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جو بائیڈن کو گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے بات اور غزہ کے سرحدی شہر رفح پر ممکنہ حملے کے بارے میں اپنے واضح موقف کا اعادہ کرنا پڑ گیا۔

30 اپریل 2024 منگل کے روز کی ایک مصدقہ اطلاعات کے مطابق آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے طالب علم اور امریکی شہری فلسطینیوں کے حقوق پر بڑی توجہ دے رہے ہیں۔ اس سے قبل اتنا شدید ردعمل کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا ھے ۔ امریکی مسلم اور غیر مسلم طالب علموں کی رائے میں حالیہ احتجاج کے مثبت نتائج دکھائی دے رہے ہیں۔ یورپ اور آمریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکیوں کا اتنا شدید ردِ عمل اس پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ طالبعلم اور شہری امریکی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اسرائیل کی مالی اور عسکری امداد فوری طور پر بند کی جائے۔ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا فوری ازالہ کیا جائے۔ اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے والی کمپنیوں اور شخصیات کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ ھورھا ھے۔ احتجاجی مظاہروں میں شامل طلبہ اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات اور شخصیات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی جارحیت کا نشانہ بننے والے غزہ کے مکینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکی یونیورسٹیوں میں جاری احتجاج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جارہا ھے ۔ یہ احتجاجی مظاہرے پورے یورپ اور آسٹریلیا میں بھی پھیل گئے ہیں۔ احتجامی مظاہروں میں شریک طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی متعدد یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے بھی غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف طلبہ کے احتجاج کی حمایت کرنا شروع کر دی ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ھے کہ اسرائیل سے منسلک کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ ان کے ساتھ تمام معاہدے ختم کئے جائیں۔ مغربی میڈیا ہاؤسز کی خبروں کے مطابق گزشتہ روز فرانس کے دارالحکومت پیرس میں درجنوں طلبہ نے سوربون یونیورسٹی کے باہر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔جرمن پارلیمنٹ کے باہر بھی غزہ کے حق میں نعرے لگائے گئے جس کی وجہ سے پولیس کو کارروائی کرنا پڑی۔ گزشتہ اتوار کے روز 28 ایریل کو اسلام آباد میں پانچویں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی ۔ اس میں جرمن سفیر الفریڈ گریناز نے بھی شرکت اور خطاب کیا۔ جرمن سفیر کے خطاب کے دوران چند نوجوانوں نے غزہ آپریشن کے میں اسرائیل کے لیے جرمن حمایت و امداد پر احتجاج کیا۔ جرمن سفیر کو کچھ دیر کے لیے اپنا خطاب روکنا پڑا۔ طالب علموں کے سوالات پرجرمن سفیر اچھے خاصے برہم ہو گئے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جرمن سفیر کو اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے بلایا کیوں گیا تھا؟ کیونکہ جرمن ہمیشہ تاریخ کے غلط رخ پر کھڑے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جرمن قوم کرہ ارض پر سب سے زیادہ فاشسٹ قوموں میں سے ایک قوم ھے۔ جرمنی فلسطین میں نسل کشی کی حمایت کررہا ہے اور جرمن سفیر پاکستانی قوم کو انسانی حقوق پر لیکچر دیے رھے تھے۔ ان کو اپنے اس دوہرے معیار پر شرم آنی چاہیے تھی ۔

مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جاری جارحیت پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی ، مسلم عرب و عجم ملکوں کی بےحسی انہتائی افسوسناک ہے ۔ پاکستان کی حالت ھی کچھ اور ھے ۔ انہتائی افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی حکومت ، سیاسی جماعتیں ، پاکستانی قوم ، ھمارا معاشرہ بدلتی دنیا کے بدلتے ھوئے حالات اور فلسطین کے مسلہ سے بالکل بےخبر اور لاعلم ھے ۔ موجودہ حکومت نے اپنے مراسلہ میں غزہ کی مظلومیت ، تباھی بربادی ، اسرائیل کی کھلی جارحیت اور غنڈہ گردی کا کہیں ذکر تک نہیں کیا ھے ۔ سابق وزیر اعظم شاھد خان عباسی نے میزبان سیلم صافی سے انٹرویو کے دوران ن لیگ حکومت کے اس کارنامہ کے بارے میں اس پس پردہ حققت کا انکشاف کر چکے ھیں ۔ موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف سے معاہدات اور بیرونی قرضہ جات کی پڑی ھوئی ھے ۔ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن میں اقتدار کی رسہ کشی اور دھینگامستی ھورھی ھے۔ شکست خوردہ دینی سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلنے کی تیاریاں کررھی ھیں ۔ اپوزیشن کی جانب سے اڈیالہ جیل کے قیدی کو چھڑانے کی دھمکیاں دی جارہی ھیں ۔ عدلیہ ، سینئر بیورو کریسی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اختیارات کی جنگ چھڑی ھوئی ھے ۔ عالمی حالات سے بےخبر پاکستانی قوم فضول کی قسم کی بحث ومباحثہ اور تکرار میں الجھی ہوئی ھے ۔ دینی تنظمیں ثواب اور جنت الفردوس کے چکروں میں پڑی ہوئی ھیں۔ فلسطینی عوام کے نام پر چندہ اور مالی امدادیں حاصل کی جارہی ھیں ۔ امریکہ اور یورپ کی طرح پاکستان کے کسی بڑے تعلیمی ادارے میں احتجاج نہیں ھو رھا ھے ۔ اور نہ ہی کوئی اپنی ملازمت اور خواھشات کی قربانی دے رھا ھے ۔ صرف بڑی بڑی باتیں اور لیکچررز دیئے جارہے ہیں اور وہ بھی صرف سوشل میڈیا پر امریکی ڈالرز کے عوض دیئے جارہے ہیں ۔ ھر ایک صاحب ایمان کو دنیا و آخرت کی دولت کمانے کی فکر پڑی ھوئی ھے۔ جن لوگوں کے کاروبار امریک میں ھوں وہ مفادات پرست حضرات اسرائیلی جارحیت کی مزمت کیسے اور کیونکر کرسکتے ہیں ۔

نوٹ۔ ادارہ کا کالم نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button