کالم

الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری

الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021


پاکستان تحریک انصاف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے. وہ عوام سے کیے گئے اپنے ہر وعدہ کی نفی کرتی دکھائی دے رہی ہے. مہنگائی، بیروزگاری، امن وامان کی ناقص صورتحال اس حکومت کے عوام کےلیے تحائف ہیں. بدقسمتی سے یہ اپنی ناکامی کااعتراف کرنے کی بجائے. اس کا تمام ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈالتی جا رہی ہے. اس حکومت کی تمام مشکلات اس کی اپنی پیدا کردہ ہیں . یہ خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں اس قدر مگن ہے. کہ اسے اس کام کے سوا کچھ نہیں سوجھ رہا. دن رات اپنے سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھلنا اس نے اپنا نصب العین بنا رکھا ہے. آئے روز اس کی طرف سے کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے. کبھی ڈیلی میل تو کبھی براڈ شیٹ جیسے سکینڈلز کو ایشو بنا کر کریڈٹ سمیٹنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں. یہ سوچے بنا کہ اس سے ملک کی کتنی بدنامی پو گی. انہیں گرانے اور رسوا کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں. ان کی پھرتیاں ہی انہیں لے ڈوبے گیں. آرمی چیف کی ملازمت توسع کے معاملہ میں حکومت وقت نے جو کچھ کیا اس سے پوری دنیا میں اس ادارے کی جگ ہنسائی ہوئی . اب ایوان بالا سینٹ کے الیکشن قریب آتے ہی حکومت وقت حواس باختہ ہو چکی ہے. اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کرے. . اس کی عقل سیلم کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیں. کہ سینٹ الیکشن کے طریقہ کار میں ترمیم پارلیمنٹ سے کروانے کی بجائے. اس نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کر دیا ہے . جس میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئ ہے. کہ سینٹ الیکشن میں دھاندلی کو روکنے کے لیے شو آف ہینڈ (اوپن بیلٹ ) کا طریقہ کار رائج کیا جائے. سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کیس کو سماعت کے لیے منظور کر لیا. اور اس پر سماعت شروع کر دی گئی ہے. اس کیس کی ابتدائی سماعت پر عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اس آئیںی ترمیم کو حکومت پارلیمنٹ سے کیوں نہیں کروا رہی. آئین میں ترمیم کا بہترین فورم تو پارلیمنٹ ہے. ہم بطور عدلیہ تو اس قانون کی تشریح کر سکتے ہیں. اگر خفیہ رائے شماری اتنا ہی غلط طریقہ ہے. تو پھر آئین پاکستان کے خالقوں نے اسے آئین میں شامل کیوں کیا تھا. شاید انہوں نے تفصیلی گفت و شنید کے بعد اس طریقہ انتخاب کو سب سے موزوں جانا ہوگا. اسی لیے تو اسے نافذ عمل کیا گیا . اب آپ کو اس میں کیا قباحت نظر آرہی ہے. پاکستان تحریک انصاف جو آج سینٹ الیکشن میں خریدو فروخت کی سیاست کو دفن کرنے کی بات کرتی ہے. تو شاید ان کا حافظہ کمزور پڑ جاتا ہے. مگر عوام کی یادداشت بہت تیز ہے. انہیں یاد ہے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل پاکستان تحریک انصاف نے کس طرح سے غیر جمہوری طریقہ سے بلوچستان میں ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا. اور پاکستان مسلم لیگ ن کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر سینٹ میں اپنا چئیرمین سینٹ منتخب کروایا. اور اس پر جشن بھی منایا کہ دیکھا ہم نے کس طرح سے اقلیت میں ہوتے ہوئے. سینٹ میں برتری ثابت کی. اب جب دوبارہ سے سینٹ الیکشن قریب آ رہا ہے. اور تحریک انصاف کے اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اس سے ناراض ہیں . تو اس نے سینٹ الیکشن کو اوپن بیلٹ سے کروانے کا اعلان کر دیا ہے. شاید پاکستان تحریک انصاف کے اخلاقیات کے پیمانے بھی خود سے مقرر کیے ہوئے ہیں. جو انہیں اچھا لگے اور ان کے ذاتی مفاد میں ہو. تو وہ درست ہے. جس سے انہیں نقصان کا اندیشہ ہو وہ غلط ہے. یہ کیوں بھول جاتے ہیں. کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے. آج پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ہاتھوں سے کاشت کی گئی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے. تو ایسے میں اسے اخلاقیات کا درس یاد آگیا ہے. اس کی بدحواسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے. کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی ریفرنس پر ابتدائی سماعت کے بعد اسے محسوس ہو گیا ک سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین پاکستان کی بنیادی روح کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرنا. اس لیے اس نے پہلے عجلت میں قومی اسمبلی سے اس بل کو پاس کروانے کی کوشش کی. مگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھرپور و موثر احتجاج کی بدولت انہیں منہ کی کھانی پڑی. ڈھائی سال تک انہیں الیکشن میں ترامیم یاد نہیں آئیں. یکایک سینٹ الیکشن قریب آتے ہی انہیں الیکشن ترمیمی بل پر قانون سازی یاد آ گئی. یہ تو ساری اپوزیشن کو چور اور ڈاکو کہتے نہیں تھکتے. تو پھر ان سے کیسے امید رکھتے ہیں کہ وہ انہیں ترامیم کرنے میں مدد دے گے. اور وہ بھی جو محض بدنیتی پر مبنی ہیں. حکومتی بدحواسی اس قدر بڑھ چکی ہے. کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس کی سماعت کے دوران ہی حکومت وقت نے بابائے آرڈیننس کے ذریعہ سے الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری کر دیا ہے. جس کے تحت الیکشن بل 2017 کی شق 122 میں ترمیم کر دی ہے. جس کی روح سے اب الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ اور اس کے نمائندے کو استفسار کرنے پر کسی بھی رکن کا ووٹ دیکھا سکتا ہے . ہر ووٹ پر ووٹ دہندہ کا نام درج ہو گا. اگر حکومت نے صدارتی آرڈیننس ہی لانا تھا تو پھر سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیا کرنے گئی تھی. کیا وہ عدالت عظمیٰ کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے. وزیراعظم عمران خان موجودہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کو بھی جسٹس ثاقب نثار ہی سمجھ رہے تھے. جو اس کی ہر بات کو درست قرار دیتے رہے. مگر اب ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے. اب ماضی جیسا کچھ نہیں ہو گا. اوپن بیلٹ کا طریقہ انتخاب اتنا آسان نہیں ہے. کیونکہ اس کے تحت قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اس طریقہ انتخاب کو نافذ کرنا پڑے گا. اگر اوپن بیلٹ کا طریقہ انتخاب اتنا ہی اچھا ہے تو پھر ہر الیکشن اسی طریقہ انتخاب کے تحت کروانے چاہیے. حکومت وقت کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قانون سازی نہیں کرنی چاہیے. وزیراعظم عمران خان کس منہ سے سیاست میں اخلاقیات و شفافیت کی بات کرتے ہیں. سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے الیکشن 2013 کے نتائج کے مطابق صوبہ خیبر پختون خواہ میں پاکستان تحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع فراہم کیا. کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے خییبر پختون خواہ میں سب سے زیادہ نشستیں جیتیں تھیں. اگر میاں محمد نواز شریف چاہتے تو دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر وہاں حکومت سازی کر سکتے تھے. مگر انہوں نے سیاست میں رواداری، برداشت اور حقیقت پسندی کو فروغ دیا.. اس کے برعکس الیکشن 2018 کے نتیجہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کیں . اخلاقی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو صوبہ پنجاب میں اسے حکومت سازی کی دعوت دینی چاہیے تھی. مگر اس نےچھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین صوبائی اسمبلی کو خرید کر اپنی حکومت قائم کر لی. اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے. بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو خرید کر بلوچستان کی صوبائی حکومت ختم کر دی گئی. اور سینٹ کے الیکشن میں بھی خریدو فروخت کرکے اپنا چئیرمین سینٹ منتخب کروا لیا. ان سب کاموں کو سر انجام دینے کے بعد اب انہیں اخلاقیات کا درس یاد آگیا ہے. آخر کب تک عمران خان اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے عوام کو بیوقوف بناتے رہے گے. محض سینٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے. اگر تمام سیاسی جماعتیں جنرل الیکشن میں اپنے نظریاتی ورکرز کو قومی و صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس دے. تو انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق نہ رہے. کہ ان کے اراکین ان سے بے وفائی کرے گے. کیونکہ جب سیاسی جماعتیں پکڑ دھکڑ کر لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر اسمبلیوں میں لے آتیں ہیں. تو وہ لوگ ہر وقت ذاتی مفاد کی تلاش میں رہتے ہیں. سیاسی جماعتوں کو منفی قانون سازی کی بجائے اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. قانون جیسا مرضی بنا لیا جائے. جب تک سیاسی جماعتیں اپنی روش تبدیل نہیں کرے گی. اچھے سےاچھا قانون بھی ناکام ہو جائے گا. کیا ہی اچھا ہو کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے بعد جیسے مخصوص سیٹیں ان جماعتوں میں عددی اکثریت کے مطابق تقسیم کر دی جاتی ہیں. ایسے ہی سینٹ میں ہر جماعت کو اس کی عددی اکثریت کے مطابق سیٹیں مقسوم کر دی جائے. تو اس طریقہ سے بھی خریدو فروخت کو روکا جاسکتا ہے. اگر انسان کچھ بہتر کرنے کا پختہ ارادہ کر لے تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں. حکومت وقت کو بے کار کے اختلافات میں الجھنے کی بجائے. مثبت اور موزوں طریقہ انتخابات بارے سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہو گا. اور اپنے مثبت رویہ سے اپوزیشن جماعتوں کو یہ باور کروانا ہوگا. کہ یہ سب کچھ ملکی مفاد اور سیاست میں اچھی روایات کو پروان چڑھانے کی غرض سے کیا جا رہا ہے.اس میں کسی قسم کا ذاتی مفاد پنہاں نہیں. تبھی ملکی سیاست میں مثبت روایات پروان چڑھے گی.

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button