قومی

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے

اسلام آباد (94 نیوز) وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے، فروغ نسیم کل سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا کیس لڑیں گے، اسی لیے انہوں نے اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا، اٹارنی جنرل انور منصور خان ان کی معاونت کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس کے اختتام کے فوری بعد وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔بتایا گیا ہے فروغ نسیم نے آرمی چیف کی طرف سے سپریم کورٹ میں کیس لڑنے کیلئے اپنی وزرات سے استعفیٰ دیا ہے۔ فروغ نسیم نے وفاقی کابینہ کا اجلاس ختم ہونے کے بعد اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ فروغ نسیم وفاقی وزیر کا عہدہ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کا کیس نہیں لڑ سکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر آرمی چیف کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے دوسرے سیشن میں وزیراعظم نے کابینہ ارکان اور قانونی ماہرین سے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن پر مشاورت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا۔اس دوران کابینہ کے تمام اراکین نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر اتفاق کیا اور اس حوالے سے نئی سمری کی منظوری دے دی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی نئی سمری منظوری کیلئے صدر مملکت کو بھجوا دی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ ارکان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیارچیف ایگزیکٹوکے پاس ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کشمیر اور سکیورٹی صورتحال کو دیکھ کرکیا۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کابینہ کا متفقہ فیصلہ ہے۔ ارکان نے کہا کہ وفاقی کابینہ متفقہ طور پر فوج کے ساتھ ہوگی۔

ذرائع نے کہا کہ وزیراعظم نے عمران خان سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معطل نوٹیفکیشن پر قانونی ماہرین سے مشاورت کر کے نئی سمری منظور کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل منگل کے روز سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی،درخواست گزار نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔عدالت نے کیس واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کے لیے ہاتھ سے لکھی درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں۔معلوم نہیں مقدمہ آزادانہ طور پر واپس لیا جا رہا ہے یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 29نومبر کو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن صدرِ مملکت کی منظور کے بعد جاری ہو چکا ہے۔چیف جسٹس نے کہا صدر کی منظوری اور نوٹیفیکیشن دکھائیں۔اٹارنی جنرل نے دستاویزات اور وزیراعظم کی صدر کو سفارش عدالت میں پیش کی۔چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار نہیں۔آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار صدر کا ہے۔یہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کر دیا۔پھر وزیراعظم کو بتایا گیا کہ توسیع آپ نہیں کر سکتے۔۔آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکیشن 19 اگست کا ہے۔19 اگست کو نوٹیفیکیشن ہوا ، وزیراعظم نے کیا 21 اگست کو منظور دی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری چاہئیے تھی۔چیف جسٹس نے کہا کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار رکھتی ہے۔ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کے لیے ہو گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی۔ 25 رکن میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی۔14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی۔کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟۔جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔چیف جسٹس نے کہا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے،کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر ہاں نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

 

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button