کامرس

حکومت نے ملک کو فوری دیوالیہ کے خطرے سے بچالیا

اسلام آباد (94 نیوز) پاکستان نے جمعہ کو  ایک ارب  ڈالر کے سکوک بانڈ کے لیے ادائیگی کردی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان  کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے سکوک بانڈ کی ادائیگی کرکے ملک کو فوری طور پر دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچا لیا ہے۔

سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بلومبرگ کو بتایا کہ پاکستان نے سکوک بانڈز کی ادائیگی اپنی میچورٹی سے تین دن قبل سٹی گروپ ان کارپوریشن کو منتقل کر دی ہے جو کہ آگے رقم قرض دہندگان میں تقسیم کرے گا۔ بلومبرگ کی طرف سے مرتب کردہ اشارے کی قیمتوں کے اعداد و شمار کے مطابق جمعہ کو نوٹ 98.9 سینٹس تک بڑھ گئے ، یہ  اکتوبر میں 83 سینٹ کی ریکارڈ کم ترین سطح سے تقریباً 16 سینٹ کی واپسی کی ہے۔

ابتدائی ادائیگی نے قریب المدت ڈیفالٹ کے خطرے سے بچنے میں مدد کی  ہے تاہم پاکستان کے  طویل مدتی قرض ادا کرنے کی  اہلیت پر خدشات برقرار ہیں۔پاکستان کو مالی سال 2022-23 میں تقریباً 25  ارب  ڈالر واپس کرنے کی ضرورت ہے، اس میں سے زیادہ تر رقم  پہلے ہی واپس کر دی گئی ہے۔

اس سے قبل  پوسٹ مانیٹری پالیسی بریفنگ کے دوران  سٹیٹ بینک کے سربراہ نے کہا تھا کہ کثیر جہتی اور دو طرفہ ذرائع سے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ادائیگی سے زرمبادلہ کے ذخائر متاثر نہ ہوں ۔  واضح رہے کہ پاکستان کو اس ہفتے کے شروع میں ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 500 ملین ڈالر بھی موصول ہوئے تھے جب کہ سعودی عرب نے  بھی  سٹیٹ بینک کے پاس موجود تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹس کی مدت بڑھا دی ہے۔

اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے، وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے کہا کہ یہ واقعی اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے ایک ارب ڈالر سکوک کی ادائیگی وقت سے پہلے کر دی ہے، اس سے فوری ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ انہوں  نے مزید کہا کہ پالیسی سازوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو ڈالر کے  لیکویڈیٹی بحران کا سامنا ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے دوست ممالک اور کثیر جہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی طرف سے وعدہ کردہ رقوم کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ رہنا بہت ضروری ہے۔ توانائی کے تحفظ، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام  کی دوبارہ تخصیص، اخراجات پر کنٹرول، مانیٹری پالیسی کی تکمیل کے لیے سخت مالیاتی اور ڈالر  حاصل کرنے کے لیے تیز رفتار منصوبوں جیسے کچھ جرات مندانہ فیصلے بھی ضروری ہیں۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button