کالم

4 اپریل پاکستان کی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا

کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

94 نیوز طارق محمود جہانگیری: بی بی سی اردو سروس نے اپنے حالات حاضرہ کے پروگرام میں اسلام آباد کے نامہ نگار مارک ٹیلی کے حوالے سے ایک تہلکہ خیز انکشاف کیا تھا کہ 4 اپریل بدھ پاکستان کی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔ 3 اپریل کی رات ہی بی بی سی نے یہ خبر بریک کردی تھی کہ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور اہلیہ نصرت بھٹو سے آخری ملاقات کروا دی گئی ہے۔ سندھ کے گاؤں میں مقامی گورکن اور کچھ رشتے داروں کو انتظامیہ نے رات گئے قبر کھودنے کا عندیہ بھی دے دیا تھا۔ جب 4 اپریل کی صبح C130 طیارہ میں ایک تابوت میں میت رکھ دی گئی تھی ۔تابوت جیکب آباد میں اتار کر گڑھی خدا بخش کی پرواز کے لیے تیار ہیلی کاپٹر میں رکھا گیا بھٹو خاندان کے سوگواران کو سختی سے خبردار کردیا گیا تھا کہ دفن کے وقت کسی کو اجازت نہیں ھوگی۔ خاندان کے صرف چند افراد کو ہی نمازِ جنازہ پڑھنے کی اجازت ہو گی۔ تدفین کا عمل مکمل ہونے کے قربیا دو گھنٹے بعد ریڈیو پاکستان سے مختصر سی خبر نشر کی گئی کہ آج علی الصبح سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی ہے ۔ پھانسی کی خبر سب سے پہلے بھارتی ریڈیو نے نشر کی تھی ۔ ڈسٹرکٹ جیل کے تمام نشانات کو بھی مٹا دیا گیا تھا۔ اب جیل کے اس مقام پر قیدی بیرکوں اور کال کوٹھڑیوں کی جگہ پارک، میکڈونلڈز اور ملٹی پلیکس مووی تھیٹر بن چکے ہیں 4 اپریل 1979 کو پورے پاکستان میں سوگوار اور ھو کا عالم تھا۔ نہ کوئی نعرہ، نہ سڑکوں پر لاچاری کا کوئی احتجاج کیا گیا۔ نہ 9 مئی کی طرح گھیراؤ جلاؤ ٹکراؤ ھوا۔ نہ املاک یا فوجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا ، نی کوئی توڑ پھوڑ ھوئی۔ فضا بھی سوگ میں غم زدہ تھی۔ ذولفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کا ہر ایک فوجداری وکیل اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جب بھی کسی ملزم کو سزائے موت کا مستحق ٹھہرایا جانا ہے تو اس کے دفاع کے لیے دنیا بھر کے قانونی نظائر کے حوالے دینے جاتے ہیں ۔ ملزم ، مجرم کو شک کے گنجائش کا موقع دیا جاتا ہے ۔ لیکن بھٹو کو ذرا سا بھی یہ موقع فراہم نہیں کیا گیا ۔ یہ حقیقی معنوں میں عدالتی قتل تھا ۔ عدلیہ کا بدترین بحران تھا ۔ قانون و انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے منصفوں ، آئین کے نگہبانوں کو اسلامک ایٹم بم کے خالق ، یادگار دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے میزبان ، اسلامی بلاک کے چیئرمین ، آئین پاکستان کے بانی ، سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو سوئے دار پر لٹکانے کی ھر ایک کو جلدی تھی ۔ اسرائیل اور امریکہ سے بھی کہیں زیادہ جلدی میں تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو سولی پر لٹکانے کے بعد امر ھو گئے مرنے کے بعد دیومالائی شخصیت بن گئے تھے ۔ پیپلز پارٹی کا مخالف کثیر الاجماعتی وسیع اتحاد پاکستان قوی اتحاد ( 9 ستارے) کے جوائنٹ سیکریٹری پروفیسر غفور احمد نے 3 رکنی مذاکراتی وفد کے ساتھ بھٹو شہید کے ساتھ مارچ 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پرتشدد تحریک کے خاتمے اور نئے انتخابات کے بارے میں مذاکرات کیے۔ معاہدہ طے پا گیا مگر فوجی آمر جنرل ضیاء الحق 5 جولائی 1977 کی شام کو اچانک اقتدار پر قبضہ کر لیا یہ آمریت گیارہ برس تک پاکستان پر مسلط رھی۔ بالاآخر 17 اگست 1988 کو سانحہ بہاولپور میں طیارہ کریش ھونے کے بعد آمرانہ طرز نظام کی زنجیریں ٹوٹ گئیں ۔ اس حادثہ میں امریکی ڈالر افغانستان جہاد کے سارے ڈائزیرز سی آئی اے اسکرپٹ کی نذر ہو گئے۔ آموں کی پیٹیاں اپنا کام دکھا چکی تھیں۔
بھٹو شہید آخری قد آور سویلین حکمران تھا۔ اس کے بعد دو "جیم ” نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ آئندہ جو بھی بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ کی طرح وزیر اعظم بننے کی کوشش کرے گا یا عوام کسی رانما کو اپنا ھیرو بنانے کی غلطی کرے گی تو اس کا انجام بھی بھٹو کی طرح کیا جائے گا ۔ایک مخصوص قد تک کا وزیرِ اعظم ہی برداشت کیا جائے گا۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button