قومی

خان صاحب کے ہنڈلر جنرل فیض ہیں، نجم سیٹھی

لاہور (94 نیوز) جنرل فیض کے خان سے بڑے تعلقات ہیں ، خان صاحب انہیں چیف بھی بنانا چاہتے ہیں، جنرل فیض ایک اچھے جنرل ہیں، لیکن وہ بہت زیادہ متنازع ہو چکے تھے۔ یہ گفتگو نجم سیٹھی نے ایک پروگرام میں کہی۔ انہوں نے دعویٰ کیاہے کہ میں نے ایک ماہ پہلے بتایا تھا کہ ہینڈلرز ہوتے ہیں، خان صاحب کے لیول کے ہینڈلر کو کوئی پتے تو لگے ہوں گے، اس میں چھپی ہوئی بات تو نہیں ہے۔

سینئر صحافی نجم سیٹھی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب نہ ڈی جی آئی ایس آئی اور نہ ہی آرمی چیف پر اٹیک کر رہے ہیں ،وہ صرف ایک شخص پر کر رہے ہیں ، ظاہر ہے کوئی ان کو کوئی کہہ رہاہے کہ ِادھ کرو ، اُدھر نہ کرو، اس سے یہ سمجھ آتی ہے کہ خان صاحب کے ساتھ وہاں سے جو شخص رابطے میں ہے وہ اسے ٹارگٹ کرنا چاہ رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے پلانز میں کوئی رکاوٹ ہے ۔

نجم سیٹھی کا کہناتھا کہ میرا ایک اور کلپ ہے جو بات میں نے ایک ماہ پہلے کی تھی، جس میں , میں نے بتایا تھا کہ کہاں سے انہیں فیڈ کیا جارہاہے اور ان کے ہینڈلر کون ہیں۔ خاتون میزبان نے کہا کہ ہم کسی مجبوری کے باعث وہ کلپ چلا نہیں سکے تھے ، اس بات پر نجم سیٹھی غصہ کر گئے اور سیٹ سے اٹھ گئے ، سینئر صحافی نے کہا کہ یار یہ کیا بات ہوئی ،میری چیزیں سینسر کر دیتے ہیں، پھر فائدہ کیا ہوا اتنی باتیں کرنے کا، میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی، آج آپ نے یہ بات چلا دی ، لیکن جو ایک ماہ پہلے کی تھی وہ نہیں چلائی، اسی لیے لوگ کہتے ہیں کہ چڑیا کی خبریں نہیں آ رہی ، کیونکہ آپ لوگ پرکاٹ دیتے ہیں ۔

نجم سیٹھی نے دوبارہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ میں نے ایک ماہ پہلے بتایا تھا کہ ہینڈلرز ہوتے ہیں، خان صاحب کے لیول کے ہینڈلر کو کوئی پتے تو لگے ہوں گے ، اس میں چھپی ہوئی بات تو نہیں ہے ، کہ جنرل فیض کے خان سے بڑے تعلقات ہیں ، خان صاحب انہیں چیف بھی بنانا چاہتے ہیں، جنرل فیض ایک اچھے جنرل ہیں، لیکن وہ بہت زیادہ متنازع ہو چکے تھے ، وہ خان صاحب سے ہو سکتاہے کہ ابھی بھی رابطے میں ہوں ، خان صاحب نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ مجھے تو انٹیلی جنس ایجنسی سے پتا چلا تھا ، تو یہی ہم کہہ رہے تھے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے پتا چلا تھا تو آج کی انٹیلی جنس سے کوئی خان صاحب کو معلومات نہیں دے رہا ، کل کی انٹیلی جنس ایجنسی سے ہینڈلنگ ہو رہی ہے ۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button