قومی

صادق سنجرانی ہمارا نہیں کسی اور کا تحفہ ہے، جس ادارے کا جو کام ہے وہی کرے تو بہتر ہے، رضا ربانی

کراچی(94 نیوز) پیپلز پارٹی کے رہنما ااورسابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ جس ادارے کا جو کام ہے وہی کرے تو بہتر ہے،صادق سنجرانی ہمارا نہیں کسی اور کا تحفہ ہیں، تحریک انصاف کے اپنے ہی لوگ اپنی ہی جماعت سے غیر مطمئن ہیں۔

آرٹس کونسل میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے قربانیاں جمہوریت کے لیے دیں لیکن جو صورتحال پرسوں سینیٹ میں دیکھی اس سے زیادہ شرمناک کچھ اور نہیں ہوسکتا، سوچ رہا ہوں کہ کیا ایوان اس قابل رہا ہے کہ کوئی وہاں بیٹھے اور بات کرے؟۔سینیٹ الیکشن میں پولنگ بوتھ سے کیمرہ نکلنے پر انہوں نے کہا کہ بات صرف کیمروں کی نہیں، اس کا تسلسل ذہن میں رکھنا ضروری ہے، اکتوبر میں حکومت نے 26 ترمیم پیش کیں پھر صدر نے ریفرنس جاری کیا، سپریم کورٹ کی رائے آرڈی ننس کے بر خلاف تھی، پی ٹی آئی کے اپنے ہی لوگ اپنی ہی جماعت سے غیر مطمئن ہیں ،ان کے بہت سارے ممبر پارلیمان اور صوبائی اسمبلی اس الیکشن سے پہلے آراء دے چکے ہیں اوراختلاف یہ بھی تھا کہ جب سے الیکشن ہوئے ہیں آج تک انہیں پوچھا نہیں گیا، پی ٹی آئی میں گروپ بندیاں ہیں، ان کے اراکین امیدواروں پر تحفظات کا اظہار کرچکے تھے جس کا ردعمل سامنے آیا اور گیلانی صاحب جیت گئے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہاکہ صادق سنجرانی ہمارا نہیں کسی اور کا تحفہ ہے، اس تحفے کو اپنایا  پیپلز پارٹی نے تھا، سیاسی شخصیات کی بجائے اصولوں کو اپنانا ہوگا،مکمل طور پر آئین کی حکمرانی ہونی چاہیے اور  جس ادارے کا جو کام ہے اسے وہی کام  کرنا چاہیے، پارلیمان کا کام قانون سازی کرنا ہے وہ قانون سازی کرے،چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں پریزائیڈنگ آفسیر کو آخری لمحات میں سامنے لایا گیا، کسی نیوٹرل شخص کو پریزائڈنگ افسر بنانا چاہیے تھا، آرٹیکل 69 کی ایک قدغن موجود ہے اوراس پر میری رولنگ بھی موجود ہے مگر اس میں اورانٹرنل الیکشن میں فرق ہے،ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر ووٹ ڈبوں کے بیچ میں لگا ہو تو یہ دیکھا جائیگا کہ زیادہ سائیڈ کس طرف ہے؟ سپریم کورٹ کی رولنگ بھی بڑی واضح ہے کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ ووٹرکی نیت کیا تھی۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں مختلف سیاسی جماعتیں ہیں، یہ ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوئی ہیں،پی ڈی ایم میں شامل ان جماعتوں کی سوچ الگ الگ ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button