قومی

اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کی سزا ختم کرسکتی ہے

اسلام آباد (94 نیوز) سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو اسکینڈل کا فیصلہ سنا دیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ آج صبح 9 بج کر30 منٹ پر سنایا۔ فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خود پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس آصف سعید نے کہا کہ کیس کا فیصلہ 5 نکات پر مشتمل ہے۔

اس حوالے سے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے جج ویڈیو سکینڈل کیس کے فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس نواز شریف کی سزا ختم کرنے کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ نےاسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ اس ویڈیو کے منظرِ عام آنے کے بعد جج کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دی جانے والی سزا کا از سرِ نو جائزہ لے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ کون سا فورم ہے جس پر اس ویڈیو کا فرانزک کیا جائے،اگر ویڈیو اصل ثابت ہوجائے تو اسے کیسے عدالت میں ثابت کیا جاسکتا ہے؟ وہ ویڈیو کس طرح سے میاں نوازشریف کے کیس پراثرانداز ہوسکتی ہے،نواز شریف کی سزا کے لیے کونسی عدالت یا فورم متعلقہ ہوسکتی ہے؟ ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا معاملہ بھی ہے، جبکہ ایک معاملہ جج کے ضابطہ اخلاق کا ہے۔احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک  نے گذشتہ برس میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں اُنھیں بری کر دیا تھا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے لکھے گئے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ احتسابعدالت کے جج کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے اس کے علاوہ  عدالت  عالیہ کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج نے گدشتہ ماہ جو بیان حلفی جمع کروایا تھا وہ دراصل ان کا اعترافِ جرم ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیان حلفی میں مجرم نواز شریف کے بیٹے کے ساتھ ملاقات کا اعتراف کیا ہے اور اس پیش رفت کے بعد احتسابعدالت کے سابق جج نے اس سے متعلق اعلی حکام کو نہ ہی آگاہ کیا اور نہ ہی وہ خود عدالتی کارروائی سے الگ ہوئے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button