کالم

"مولانا محمد ضیاءالقاسمی”ایک صدا بہارخطیب،

"مولانا محمد ضیاءالقاسمی”ایک صدا بہارخطیب، تحریر: محمد سعد عمر قاسمی

تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی گزری ہیں جن کے اس دنیا فانی سے جانے کے بعد بھی ان کی خوشبو، مہک، کارہائے نمایاں اور کی گئی تاریخ ساز جدوجہد گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ زیادہ نکھرتی چلی جاتی ہیں،جن سے ان کے چاہنے والوں کے دل ان کی مہک سے مہک اٹھتے ہیں، ان ہی سدا بہار شخصیات اور تاریخ حریت کے عظیم انسانوں میں ایک نام نامی امام اہل سنت، امام خطابت حضرت مولانا محمد ضیاء لقاسمی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے جنہیں اس دنیا فانی سے دنیا ابدی میں گئے ہوئے بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر ان کے جو شاگرد ہیں، تلامذہ ہیں، مقتدی ہیں کوئی مہینہ بھی ایسا نہیں گزرتا کہ ان کی ملک بھر میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے کسی نے کسی علاقہ، مسجد، مدرسہ میں کی گئی نئی تقریر سامنے نہ آتی ہو، تقریر سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کی یہ تقریر واقعی باکمال نہیں، سدا بہار بھی اور لاجواب بھی ہے،جسے سماعت کرنے کے بعد دل میں ایک روشنی، امنگ، دین اسلام کی تڑپ، اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی وحدانیت،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت، امہات المومنین سے دلی لگاؤ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اولیائے امت کے کارہائے نمایا ں کی خوشبو اس طرح معطر ہوتی ہے کہ سماعت کرنے والا پکار اٹھتا ہے کہ واقعی امام خطابت تیرا کوئی جواب نہیں۔بلاشبہ آپ کے کیے گئے خطبات سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں آج بھی سامعین کے پاس محفوظ ہیں، اس علمی خزانے کو آپ کے چاہنے والوں نے دور جدید کی اہم ایجاد انٹرنیٹ، فیس بک اور یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ حصہ آپ کے جانشین،لائق وفطین صاحبزادے حضرت مولانا حافظ زاہد محمود قاسمی مدظلہ العالی کا ہے جنہوں نے خاص محنت اور تگ ودو کے ساتھ اندون و بیرون ممالک سے آپ کی کئی گئی تقاریر کو انٹرنیٹ اور فیس بک اور یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا ہے جس کو مختصر عرصہ میں چار لاکھ سے زائد لوگوں نے سماعت کر لیا ہے ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے،جن کو موجودہ اردو اور پنجابی سمجھنے والے سامعین استفادہ کرتے چلے جائیں گے،یہ تقاریر اس قدر ضخیم اور دلائل سے بھرپور اور ان میں موضوع کے اعتبار سے اس قدر گرفت ہے کہ سامعین ہی نہیں بلکہ خطباء حضرات بھی سماعت کرنے کے بعد جمعہ کے خطبات میں سامعین کو روشنی فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
آپ کیسے خطیب تھے کہ جلسہ کرانے والے جو بھی عنوان اور موضوع کی درخواست فرماتے اسی عنوان اور موضوع پرڈیڑھ دو گھنٹہ تقریر فرمادیتے،سامعین میں عوام سے زیادہ مدارس عربیہ کے طلبہ کی تعداد زیادہ ہوتی، جن کے مہتمم حضرات طلبہ کو منع بھی کرتے کہ مولانا ضیاء القاسمی کی تقریر سماعت نہ کریں مگر حسین خوشبو کو پھیلنے سے کون روک سکتا ہے،جبر اور پابندی کو کون قبول کرتا ہے، ادھر مہتمم حضرات نظروں سے اوجل ہوتے ادرادھر طلبہ مدارس کی دیواریں پھلانگ کر جلسہ گاہ میں موجود ہوتے،آپ کی تقریر میں مخالفین بھی کثرت سے آتے، حسد بغض کے مارے ہوئے گالیاں نکال کر چلے جاتے مگر جن کے مقدر میں،جن کے دل میں اور جن کی قسمت میں توحید و سنت کی خوشبو بسنی ہوتی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کی سدا بہار خطابت کے شائق بن جاتے، آپ کے خطبہ جمعتہ المبار ک میں فیصل آباد کے شائقین کی تعداد تو ہزاروں میں ہوتی مگر یہ ایک ایسا اجتماع ہوتا تھا کہ اس میں دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے افراد بھی شریک ہوتے، آپ اپنی گول جامع مسجد میں خاص تیاری کے ساتھ خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے، کبھی بھی غیر حاضر نہ ہوتے، خدانخواستہ اگر کسی شدید مجبوری یا ملکی حالات کے باعث نماز جمعتہ المبارک میں نہ پہنچ سکتے تو اگلے جمعہ میں دور دراز سے آئے ہوئے افراد کے شکوہ و شکایت سنتے،ابتدائی دور میں اپنے مدرسہ جامعہ قاسمیہ میں سالانہ جلسہ کا اہتمام کیا، مگر جب دیکھا کہ اپنے ہی جلسہ میں مجھے ہی تقریر کرنا ہے تو آپ نے اس جلسہ کو منسوخ کر دیا، پہلے اور آخری جلسہ جامعہ قاسمیہ میں عظیم خطیب جو واقعی خطیب پاکستان تھے مجلس احرار اسلام کے لیڈر مجاہد ختم نبوت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے، اسی جلسہ میں یادگار اسلاف حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمتہ اللہ علیہ بھی شریک ہوئے۔
مولانا محمد ضیاء القاسمی خطیب ہی نہیں تھے بلکہ خطیب گر بھی تھے۔ان کے انداز خطابت کو آپ کے ہزاروں شاگردوں نے اپنایا اور اسی انداز میں تقریر کرنا اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہیں، آج بھی اندرون و بیرون ممالک میں آپ کے حسین انداز خطابت کی جھلک بے شمار مساجد میں سامعین سماعت کرتے ہیں۔بلکہ خطباء حضرات کے جو اشتہارات مساجد اور مدارس میں آویزاں ہوتے ہیں ان پر خطیب حضرات کے نام سے پہلے لکھا ہوتا ہے کہ انداز قاسمی حضرت مولانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ آپ کی حسین خطابت سننے کے بعد دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ جب تک سورج چاند رہے گا قاسمی تیرا نام رہے گا۔
نہ صرف جلسوں، کانفرنسوں میں بلکہ سرکاری اجلاسات میں،اخبارات کے مزاکروں میں میں بھی ایسی مدلل گفتگو فرماتے کہ سننے والوں پر اپنا اثر چھوڑتی،سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ مولانا علی شیر حیدری شہید آپ کی رہائش گاہ سے گرفتار ہوئے، ان کی گرفتاری پر طبیعت پر گہرا اثر ہوا۔ قانونی معاملات اپنی جگہ پر مگر آپ نے ان کی رہائی کے لیے انتھک کوشش کی، عید الاضحی کے دوسرے دن اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف، ان کے والد چوہدری محمد شریف مرحوم، میاں شہازشریف سے عظیم سکالر ڈاکٹر اسرار مرحوم کی معرفت لاہور رائے ونڈ میں ملاقات ہوئی، آپ نے ایسی مدلل گفتگو فرمائی کہ اسی میٹنگ کے اختتام پر لاہور سے میانوالی جیل روانہ ہوئے اور مولانا علی شیر حیدری شہید کو رہا کر ا کر اپنی رہائش گاہ فیصل آباد میں لے آئے، حالانکہ اس سے دو روز قبل آپ نے اپنی آنکھ کا اپریشن بھی کروایا تھا، معالج نے سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ سفر نہ کریں، مگر اپنی صحت کی خرابی تو قبول کر لی مگر اپنے ساتھی عالم کی رہائی کی تاخیر کو قبول نہ فرمایا۔
آپ جہد مسلسل کی عملی تصویر تھے، اتنی مصروف زندگی گزاری کہ آنے والے دو سال کی ڈائری مکمل ہوتی، کوئی دن بھی ایسا نہ گزرتا جس دن آپ کی تقریر کے لیے ملک بھر بلکہ آخری پندرہ سالوں میں بیرون ممالک سے تقاضے نہ ہوتے، آپ کے پاس بیرون ممالک کے واپسی ٹکٹوں کی بھرمار ہوتی مگر طبیعت کی خرابی اور مصروفیات کی وجہ سے بے شمارمقامات پر معذرت فرماتے، اگر کسی جگہ وعدہ فرما لیا تو پھر اس کو پورا فرما

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button