قومی

نوازشریف کی ضمانت، سپریم کورٹ کاتحریری فیصلہ جاری

اسلام آباد(94نیوز) سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ جس کے تحت نوازشریف کی ضمانت میں توسیع نہیں ہوگی، نوازشریف اپنا علاج ملک میں کروا سکتے ہیں،6ہفتوں بعدضمانت ازخود منسوخ ہوجائے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے نوازشریف کی 6ہفتوں کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، سپریم کورٹ کاتحریری فیصلہ 4صفحات پر مشتمل ہے۔سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرکے نوازشریف کو6ہفتے کیلئے ضمانت دینے کا حکم دے دیا۔ضمانت میں توسیع کی کوئی درخواست قابل قبول نہیں ہوگی۔نوازشریف کی 6ہفتے بعد ضمانت ازخود منسوخ ہوجائے گی۔سپریم کورٹ نے نوازشریف کی بیرون ملک جانے پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔

نوازشریف پاکستان میں کہیں سے بھی علاج کروا سکتے ہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید حکم دیا کہ نوازشریف 6ہفتوں بعد خود سرنڈر کریں گے۔

نوازشریف اگر سرنڈر نہیں کریں گے توگرفتار کرلیا جائے گا۔محدود مدت کیلئے نوازشریف کے وکیل کی استدعا مناسب ہے۔دورا ن ضمانت اپیل خارج ہوئی توگرفتاری کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ واضح رہے چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی جس کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب مظفر عباسی نے درخواست کی مخالفت کی جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف  کے وکیل خواجہ حارث نے ضمانت کے حق میں دلائل مکمل کیے۔ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز نے مشاورت کی اور چیف جسٹس نے فیصلہ تحریر کیا ۔دلائل سننے کے بعد کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہعدالت نے 6 ہفتوں کیلئے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے 50 لاکھ روپے کا مچلکہ جمع کرانے کی ہدایت کی ۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کی ضمانت کی مدت قابل توسیع ہے، اگر ضرورت پڑے تو ضمانت میں توسیع کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہوگا،عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کی رہائی کے دن سے چھ ہفتے شمار ہوں گے۔قبل ازیں سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل روسٹرم پر آئے، جہاں سابق وزیر اعظم کے وکیل نے اپنے موکل کی لندن رپورٹ کے حوالے سے تفصیلات عدالت کو بتائیں اور نواز شریف کے غیر ملکی ڈاکٹر لارنس کے خط کی مصدقہ نقل عدالت میں پیش کی جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہو گی اس کے مصدقہ ہونے کا ثبوت نہیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ خط ایک پرائیویٹ شخص نے دوسرے پرائیویٹ شخص کو لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ خط شواہد کے طور پر کیسے پیش ہو سکتا ہے ۔ وکیل نوازشریف خواجہ حارث نے کہاکہ میں اس خط پر انحصار نہیں کر رہا،انہوںنے کہاکہ نواز شریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا۔خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف اس سٹیج پر ہیں جہاں ان کی دل کی بیماری مزید بڑھ سکتی ہے ۔انہوںنے کہاکہ ان کے دل کا مرض پیچیدہ ہے ،ان کو انجیوگرافی کرانے کی ضرورت ہے ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ شوگر اور ہائپر ٹیشن کو مسلسل دیکھنا ضروری ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ان کو گردوں کی بیماری بھی اسٹیج تھری ہے ، چوتھے درجے پر ڈائیلانس درکار ہے اور پانچویں پر گردے فیل ہو جاتے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہم ڈاکٹر لارنس کی بات کو من وعن تسلیم کرلیں ،کیا ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ان کے مرض کا کوئی ثبوت نہیں ڈاکٹر لارنس نے اگر گردوں کے مرض کو اسٹیج فور کا مرض کہا ہوتا تو کیا ہم اسے بھی قبول کرلیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ میڈیکل گرائوند پر کیس بنا رہے ہے اور ہمارے پاس صرف ایک ڈاکٹر لارنس کا خط ہے۔وکیل نواز شریف نے کہاکہ ہمارے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ نے بھی نواز شریف کے گردوں کے مرض کواسٹیج تھری قرار دیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ 17 سال سے میاں نواز شریف کو یہ بیماریاں لاحق ہے ،ان بیماریوں کے باوجود انھوں نے خاصی ایکٹیو روٹین گزاری ہے ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ضمانت کے لئے میڈیکل گرائونڈ تب ہی بنے گا جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو ۔وکیل خارجہ حارث نے کہاکہ خط میں صرف میڈیکل ہسٹری ہے، جیل میں نواز شریف کی طبیعت خراب ہوئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ نوازشریف کی رپورٹس کا جائزہ لے چکے ہیں۔ وکیل نواز شریف نے کہاکہ ہائیکورٹ میں میرٹ پر درخواست بغیر دلائل واپس لے لی تھی، نوازشریف کی طبیعت خراب ہونے پر طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی۔انہوںنے کہاکہ 5 میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کی طبیعت کا جائزہ لیا۔خواجہ حارث نے کہاکہ ہر بورڈ نے نوازشریف کو اسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا فوجداری مقدمات میں محض ایک خط کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے،آپ کا تمام انحصار ڈاکٹر لارنس کے پر ہے،آپ جو بھی ہسٹری بتا رہے ہیں یہ تو پرانی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کی انجائنا کی تشخیص کی ہے۔خواجہ حارث نے کہاکہ اس بیماری کا حملہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے،اس سے قبل بھی نواز شریف کو دو اٹیکس ہوچکے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ شریانوں میں رکاوٹ کے باعث ہر وقت اٹیک کا خطرہ ہے۔انہوںنے کہاکہ اسی بنیاد پر نواز شریف کی انجیوگرافی کا کہا گیا تھا، اگر ا جیو گرافی نہ کی گئی تو ان کی صحت کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے۔وقفے کے بعد سماعت دوبار شروع ہوئی تو وکیل نوازشریف نے کہاکہ نواز شریف کی صحت خطرے میں ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل رپورٹس میں ادویات جاری رکھنے کا کہا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل رپورٹ میں کسی خطرناک صورتحال کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹر لارنس کے خط پر مزید انحصار نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف کو دل کا عارضہ 2003 سے ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کے سامنے سوال صحت کو لاحق موجودہ خطرات کا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل رپورٹس سے جائزہ لے رہے ہیں کہ صحت کو خطرہ ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ موجودہ قانون کے مطابق علاج ممکن نہ ہو تو ضمانت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت کی موجودہ صورتحال پر فوکس ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ 2011 میں بھی نواز شریف وینٹی لیٹر پر رہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ نوازشریف کی سابقہ اور موجود میڈیکل ہسٹری بتائیں، رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوازشریف کو دل کا عارضہ ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ بتائیں نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری سے صورتحال کیسے مختلف ہے،صحت کیسے بگڑرہی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نوازشریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں، انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ تمام بورڈز نے کہا ہے کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔ سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس موجود ہے،ڈاکٹر عاصم حسین عدالت کے اجازت سے بیرونی ملک علاج کیلئے گئے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم حسین کو سزا نہیں ہوئی تھی۔خواجہ حارث کی جانب سے ذہنی دبائو کے حوالے سے گفتگو پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ صرف نوازشریف کو ذہنی دباؤ سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہر قیدی ذہنی دباؤ کا خاتمہ چاہتا ہے، اگرضمانت دی جاتی ہے توذہنی دباؤ ختم کرنے کیلئے کتنا وقت چاہیی ۔ خواجہ حارث نے کہاکہ ذہنی دباؤ ختم ہونے کیلئے کئی ہفتے چاہیے ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان میں بہترین ڈاکٹرز اور مشینری ہسپتالوں میں موجود ہے ۔انہوںنے کہاکہ آخر نوازشریف ایک سزا یافتہ شخص ہے، جو سزا یافتہ نہ ہو ذہنی دباؤ تو اسے بھی ہے۔انہوںنے کہاکہ اکیسویں صدی کا اصل مسئلہ ہی ذہنی دباؤ ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج ہر مریض کا حق ہے، یہ نوازشریف کی آخری اینجیو گرافی بھی ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کسی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ نوازشریف کی بیماری انکی زندگی کیلئے خطرہ ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ سب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ جیل کی بجائے نوازشریف کا ہسپتال میں علاج ہو۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کے تحت جیل سپرنٹنڈنٹ نوازشریف کو ہسپتال منتقل کر سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ان رپورٹس کے بعد آپ ہسپتال منتقل ہونے پر مزاحمت کیوں کر رہے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ جلاوطنی کے دوران نوازشریف کا بیرون ملک علاج ہوتا رہا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نواز شریف کی موجودہ رپورٹ میں کوئی خطرے کی بات نہیں،پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق نواز شریف 2003 سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ خرابی صحت کے بنیاد پر زندگی کو خطرہ لاحق تو نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ اگر ملزم کی صحت خراب ہو اور جیل میں سہولیت نہ ہو تو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button