کالم

امام اہل سنت مولانا محمد ضیاء القاسمی ؒ ایک سدا بہار خطیب

فیصل آباد(94 نیوز) تحریر: محمد ارشد قاسمی
مرشدی امام اہل سنت حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی رحمتہ اللہ کو اس عارضی دنیا سے رحلت فرمائے ہوئے بائیس سال گزر چکے ہیں، مگر آپ ایک ایسے خطیب گر تھے کہ ان بائیس سالوں میں یوں یوں وقت گزرتا جا رہا ہے آپ کی خطابت کی چاشنی، روشنی اور سدا بہار خطابت مقبولیت کے بام عروج پر پہنچ رہی ہے، اسلامی دنیا میں اردو جاننے والے،بولنے والے خطباء کی اکثریت آپ کے انداز خطابت کو اس تکریم، عزت اور احترام کے ساتھ اپنے سینے میں لگائے بیٹھی ہے کہ ہر کسی خطیب عالم کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے انداز خطابت میں زیادہ سے زیادہ خطابت کی جا سکے، ملک کے ہر شہر، ہر قصبہ میں آپ کے انداز میں تقریر کرنے والے خطباء حضرات آج بھی آپ کے حسین انداز خطابت سے اپنے سامعین کے دلوں کو منور کر رہے ہیں۔ دنیا میں آپ اس لحاظ سے بھی منفرد اہمیت اور حیثیت کے حامل خطیب گر تھے کہ آپ کی وفات کے بعد گزرے ہوئے ان بائیس سالوں میں آپ کی کی گئی تقاریر،خطبات آئے روز انٹرنیٹ، فیس بک،یو ٹیوب پر آپ کے چاہنے والے چاہت کے ساتھ اور ایک مشن کے ساتھ اپ لوڈ کر رہے ہیں، ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی ایسی تقریر، ایسی خطابت مل جاتی ہے جو اس سے قبل شائقین نے نہیں سنی ہوتی، آپ کی تقاریر کی کثرت اس قدر کیوں نہ ہو کہ آپ دنیا اسلام کے وہ عظیم اور ہمہ وقت مصروف ترین خطیب تھے، جن کی ڈائری آنے والے دو سال کی پہلے سے طے شدہ ہوتی تھی،تقریر کرانے والے مدارس عربیہ کے مہتمم حضرات اور مساجد کے خطباء کو دو سال تک انتظار کرنا پڑتا تھا، مگر آپ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ اگر کسی کووقت دے دیا تو پھر ہر حال میں اس کو نبھاتے تھے، خواہ سفر کتنا بھی طویل کیوں نہ کرنا پڑتا، وفات سے چند سال قبل بیماری کے متعدد حملے ہو چکے تھے، اس دوران بھی مہینہ میں پانچ دس جگہ علماء کرام کے شدید تقاضے پر تشریف لے جاتے، مگر تقریر سے قبل فرماتے کہ صحت اجازت نہیں دیتی، آپ دعا فرمائیں تو کچھ خطاب ہو جائے گا، مگر جب خطاب شروع فرماتے تو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک جس کی توحید، جس کی الوہیت، جس کی یکتائی، شرک کی مذمت، شرک کی اقسام اور شرک کا گناہ کبیرہ ہونے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، خلفائے راشدین کی عظمت، امہات المومنین کی طہارت، اہل بیت عظام کی فضیلت پر ایسا لاجواب خطیبانہ خطاب فرماتے کہ یوں محسوس ہو تا کہ مولانا ضیاء القاسمی ابتدائی زمانہ عمری کے خطاب فرما رہے ہیں۔مگر ان بائیس سالوں میں ابھی آپ کی صرف نصف کے قریب ہی کی گئی تقریرں، خطبات عوام کے سامنے آئے ہیں، ابھی بھی ہزاروں کی تعداد میں آپ کی کی گئی تقاریر آپ کے چاہتنے والوں کے پاس محفوظ ہیں جنہیں ضرورت ہے کہ وہ تقاریر بھی انٹڑنیٹ، فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعہ آپ کے سننے والوں کے پاس ہونی چاہیے، تاکہ خطابت کے اس حسین شاہکار سے زیادہ سے زیادہ آپ کے شائق اپنے دلوں کو روحانی، وجدانی انوارات سے منور کرتے چلے جائیں۔آپ کے دور میں موبائل، انٹرنیٹ، فیس بک، یو ٹیوب کا وجود نہیں تھا، آج تو کوئی ایک بات کرتا ہے تو پھر اس بات کو چھوٹے شارٹ کلپ کے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلا دیتا ہے، مگر آفرین ہے اور خراج تحسین ہے آپ کے چاہنے والوں کو کہ انٹرنیٹ، فیس بک اور یوٹیوب کی عدم دستیابی کے باوجود آپ کی تقاریر اس وقت دنیا بھر کے تمام علماء کرام سے بائیس سال گزر جانے کے بعد بھی سب سے زیادہ موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت بھی عطا فرما رکھا تھا، زبان کی پاسداری اوروعدے کے پکے، معاملات میں کھرے انسان تھے،زندگی بھر دوستوں کی خوشی غمی میں برابر شریک ہوتے، طبیعت میں سادگی، مگر نفاست اس قدر کہ آپ کے انداز خطابت کے ساتھ ساتھ آپ کے چاہنے والوں نے آپ کے انداز خوبصورت صاف و شفاف لباس، قراقلی ٹوپی، عینک، کھسہ اور کندھوں پر رومال، باوقار انداز گفتگو کو بھی اپنایا، ذہانت معاملہ فہمی اس قدر کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے نظریہ، اپنے مقصد حیات اور دینی کاز کو نہیں چھوڑا۔بہادر، جی دار اور جرت اس قدر زیادہ تھی کہ زندگی بھر کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، ہمیشہ جرت کے ساتھ بہادری کے ساتھ اور دلائل کی دنیا میں اپنے موقف کو بیان فرماتے، نہ صرف سامعین کے سامنے بلکہ صدر مملکت، وزیر اعظم پاکستان، گورنر، وزیر اعلیٰ سمیت وفاقی، صوبائی سطح پر ہونے والے کنونشن،کانفرنسوں، پروگراموں میں اس جرت کے ساتھ موقف بیان فرماتے کہ کوئی بھی آپ کے دلائل کو رد نہ کرسکا۔
ملک میں عظمت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک میں شیعہ سنی قتل و غارت پر بے حد پریشان اور فکر مند تھے، آپ ہی کی تجویز پر مولانا سمیع الحق شہید نے اس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد سے مشاورت کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی کی سربراہی میں ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے پہلے اجلاس منعقدہ اسلام آباد میں آپ نے ملک بھر کے جید علماء کرام کے سامنے اس دکھ بھرے انداز میں عظمت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمائی کہ فقہ جعفریہ کے علامہ ساجد نقوی بھی کہ اٹھے کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تنقیص نہیں کرتے، چنانچہ آپ ہی کوششوں سے ملی یکجہتی کونسل نے ایک متفقہ لائمہ عمل ترتیب دیا جس پر اس وقت کے تمام قومی قائدین نے دستخط فرمائے، آپ خودفرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عظمت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اس خاکسار سے وہ تاریخ ساز کام لیا ہے جو چودہ صدیوں میں شیعہ سنی مسئلہ پر اس سے قبل نہیں ہوا۔
آپ کی ذہانت اس قدر زیادہ تھی کہ آپ کسی ایک عنوان پر گھنٹوں تقریر فرما لیا کرتے تھے، ایک ایک دن میں چار چار اس خاکسار نے آپ کی تقاریر سماعت کی، مگر کسی ایک تقریر میں نہ ہمیں یہ لگا کہ آپ وہی تقریر اور وہی بات کررہے ہیں جو اس قبل آپ نے دوسری مسجد اور دوسرے علاقہ میں بیان فرمائی ہے، مگر عنوان بے شک وہی، مگر دلائل، انداز خطابت، مضمون پر گرفت اس قدر زیادہ ہوتی کہ ایک لمحہ کے لیے بھی سننے والے نہ بور ہوتے اور نہ ہی اکتاتے، بلکہ جب تقریر ختم فرماتے تو سامعین کے دلوں سے آواز آتی کہ کاش ابھی بیس پچیس منٹ اور تقریر فرما لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
آپ نے چالیس سال گول جامع مسجد غلام محمد آباد، فیصل آباد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا معمول تھا کہ ایک بجے تقریر شروع فرماتے، کبھی اڑھائی بجے، کبھی دو بج کر بیس منٹ پر، کبھی پنتیس منٹ پر، کبھی چالیس منٹ پر کبھی پنتالیس منٹ پر، کبھی پچاس منٹ پر اور کبھی تین بجے بھی تقریر ختم فرماتے تو ساری زندگی ایک مرتبہ بھی کسی سامعین نے یہ نہیں کہا کہ حضرت وقت ہو گیا ہے، مگر جب بھی تقریر ختم فرماتے تو ہر طرف سے یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابھی اور کچھ وقت لے لیتے، گول جامع مسجد میں نئے آنے والے حضرات پوچھتے کہ جمعتہ المبارک کی جماعت کب کھڑی ہوتی تو ہم عرض کرتے کہ یہ آزاد لوگوں کی مسجد ہے جب خطیب صاحب تقریر ختم فرمائیں تو جماعت کھڑی ہو جائے گی۔ذالک فضل اللہ یوتہ من ایشاء۔
آپ کھلے دل اور کھلے ذہبن کے خطیب تھے، ساری زندگی نوجوان خطباء کی حوصلہ افزائی فرماتے، انہیں اپنے ساتھ جلسوں، کانفرنسوں میں لے کر جاتے، ان کا ملک بھر میں تعارف فرماتے، ان کی تقریر کراتے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسد کی بیماری سے ہمیشہ بچائے رکھا، یہی وجہ تھی کہ آپ کے ساتھ محبت،انس اور آپ کی قیادت میں کام کرنے والے ہزاروں علماء کرام جمع تھے، کسی بھی قومی مسئلہ پر اگر مشترکہ آواز بلند کرنا ہوتی تو آپ کی طرف سے ان سب خطباء کو پیغام چلا جاتا کہ خطبہ جمعہ میں پیش آنے والے واقعہ کو موضوع سخن بنایا جائے تو پھر وہ مسئلہ ملک بھر میں ایک ہی جمعہ بیان ہوجایا کرتا۔
آپ ملک میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی، جاہلانہ رسم و رواج۔ غلط عقائد باطلہ کی اس شدت کے ساتھ تردید فرماتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کے حسین، تابناک اور سدا بہار روشن پہلووں کو اجاگر فرماتے، فرمایا کرتے کہ سنت رسولی صلی اللہ علیہ وسلم اپنانے ہی سے انسان کی نجات ہے، اپنی طرف سے نکالے گئے طور طریقہ کسی طرح بھی اسلام کا لبادہ نہیں اوڑھ سکتے، ان انسانی ایجادات نے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہنا ہے، انسانی ایجادات وقتی، محلاتی، علاقائی ہوتی ہیں جبکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا سدا بہار روشن پھول، خوشبو اور دائمی طریقہ ہے کہ جس نے ہر علاقہ میں، ہر ملک میں، ہر دور میں قائم رہنا ہے، دنیا کی کوئی طاقت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کو نہ تبدیل کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کو ختم کو سکتی ہے، یہ وہ سدا بہار روشنی اور خوشبو ہے جس نے ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کے قلوب کو منور کرتے چلے جانا ہے۔
دنیا میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اگر آج بھی ایک تواتر کے ساتھ اور ایک ترتیب کے ساتھ اپنی اپنی مساجد میں نماز فجر کے بعد درس قرآن مجید کا اہتمام فرما لیں تو اس سے فرقہ واریت از خود ختم ہوتی چلی جائے گئی، قرآن مجید کی تعلیمات قیامت تک کے آنے والے مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں، یہی وہ کتاب ہدیات ہے جس نے انسانوں کی رہنمائی کرتے چلے جانے ہے، اسی پر عمل پیرا ہو کر مسلمان فرقہ واریت سے نکل کر ایک وحدت، یگانگت اور امت وحدہ بن سکتے ہیں، مگر دکھ کے ساتھ فرماتے کہ جاہل مولوی جو صرف وڈیرے، سرمایہ دار اور جاگیر دار کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے وہ قرآن مجید کی حقانیت کو بیان نہیں کرتا اور نہ ہی اس روشنی کو اپنے سامعین کے دلوں میں اتارتا ہے۔
آپ کی زندگی جہد مسلسل سے بھر پور تھی، کوئی دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں آپ کے پاس کوئی فرصت کا وقت ہوتا، پہلے سے طے شدہ معاملات میں ساری زندگی وقت گزرتا، سفر اس قدر زیادہ نہ صرف پاکستان کے قریہ قریہ بلکہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ،برطانیہ،فرانس، کنیڈا، امریکہ، جرمنی، ہالینڈ،ڈنمارک، اٹلی، سپین،بھارت،اسلامی دنیا کے ممالک عراق، لیبیا، مصر، شام، اردن،متحدہ عرب امارات،قطر، شارجہ، ابوظہبی، دوبئی،ساؤتھ افریقہ، بنگلہ دیش ممالک کے کامیاب دورے فرمائے، جب پاکستان سے مرزائیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد بھاگ کر برطانیہ چلے گئے تو اس کے خلاف برطانیہ میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس ویمبلے ہال کا انعقاد بھی آپ کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھا، جس کے بعد پھر دنیا بھر کے ممالک میں مرزائیوں کے خلاف امت مسلمہ کی ایک خوشگوار فضا قائم ہوئے، آپ کو دیگر ممالک میں بھی خطاب کرنے کے لیے تقاضے آنا شروع ہو گئے۔ان ممالک میں جس جگہ بھی ایک مرتبہ تقریر کے لیے تشریف لے جاتے تو اسی جگہ پر ختم نبوت کے عنوان پر جماعت اور علماء کرام کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہی دلاتے احیائے ختم نبوت اس شدت کے ساتھ بیان فرماتے کہ پاکستان میں دو مرتبہ آپ کو(بہاول پور اور فیصل آباد)قید و نظر بندی کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اس قدر زیادہ تھی کہ ابھی زندگی کی ۳۶ بہاری ہی دیکھ رہے تھے فرمانے لگے کہ میں ۳۶ سال سے زائد عمر کو بھی بدعت سمجھتا ہوں، اچھے بھلے تھے، شوگر، گردوں کے امراض میں عرصہ سے مبتلا تھے،تلونڈی ضلع نارووال کی مسجد میں تقریر فرمائی تو وہیں سے درد گردہ کے شدید درد کے بعد شیخ زید بن سلطان ہسپتال لاہور میں داخل ہوئے، ایک ماہ علالت کے بعد اس شان س اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوئے کہ ہر زبان پر ایک ہی صدا اور ایک ہی درد بھری آواز تھی کہ ہائے ہم نے ایک یکتائے روزگار ہیرا کھو دیا ہے، جس کو قیامت تک بھی ڈھونڈے لگو تو نہ پا سکو گے، وہ اپنی مثال آپ تھے، اپنے انداز کے اپنے حسین خطابت کے حسین اکیلے ہی شاہکار تھے، اگر مبالغہ نہ ہو تو آپ کے جانے کے بعد دینی مدارس کے سالانہ جلسوں کا ماحول مانند پڑ گیا ہے، جس شوق، جزبے، ایمانی حرارت سے سامعین مہینوں، سالوں انتظار فرماتے وہ خطیب اب دور دور تک کہیں نظر نہیں آتے۔
۹۲ دسمبر ۰۰۰۲ جمعتہ المبارک نماز عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت اس انداز سے ہوئے کہ آپ کی زبان مبارک پر کلمہ توحید جاری تھا اور اپنی اولاد سے فرما رہے تھے کہ گواہ رہنا میں نے ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی ہے، اور کلمہ پڑھتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک کے پاس حاضر ہو گئے،(انا للہ وانا الیہ راجعون)آپ کے مداح آج بھی آپ کی کی گئی ہزاروں کی تعداد میں انٹرنیٹ پر موجود تقاریر کو سن کر اپنے قلوب کو روشن کر رہے ہیں،اسی طرح اپنی تصنیف خطبات قاسمی جو ساتھ جلدوں پر مشتمل ہے وہ بھی خطباء حضرات اور طالب علموں کے لیے عظیم علمی خزانہ ہے جس میں نت نئے موضوعات انہیں بے شمار کتابوں کے مطالعہ سے بے نیاز کر تے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں برکتیں عطا فرمائے، اور آپ کے درجات کو بلند سے بلند کرتا رہے۔آپ کے مشن کی آبیاری کے لیے آپ کے دونوں صاحبزادے صاحبزادہ پیر جی خالد محمودقاسمی نائب مہتمم جامعہ قاسمیہ اور صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی مہتمم جامعہ قاسمیہ و چیئرمین مرکزی علماء کونسل پاکستان نے اپنے والد گرامی قدر کے مشن کو جس جرت ایمانی کے ساتھ زندہ و جاوید کر رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

Show More

Related Articles

جواب دیں

Back to top button